معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی ساری تقریریں رات کو لکھتے تھے، حتیٰ کے بعض راتوں میں تقریر لکھتے لکھتے فجر کی اذان ہوجاتی تھی۔درس اور تدریس مولانا ماجدعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تکمیل درسِ حدیث کے بعد پھر حضرت والا مولانا فضل حق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اوپر کی کتابوں کی سماعت کی غرض سے دو سال شریکِ درس رہے۔ ایک روز مولانا فضل حق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی!اب جاؤ کہیں پڑھاؤ، کب تک یہیں رہو گے؟ اب ہمارے اور تمہارے علم میں اعم و اخص من وجہٍ ہی کا تو فرق ہے۔ اسی زمانے میں سیتا پور سے مولوی عبدالقادر صاحب پنشنر ڈپٹی کلکٹروالدماجد جناب مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی کا خط مولانا کے پاس ایک مدرس اوّل کی ضرورت کے لیے آیا، مولانا نے حضرت والا کو سیتا پوربھیج دیا۔ اس مدرسےکا نام مدرسہ اسلامیہ عربیہ تھا۔ چند ماہ پڑھانے کے بعد ایک بار وہاں کے لوگوں نے حضرت والا سے کہا کہ آپ بھی تیجہ اور چالیسواں وغیرہ رسومِ جاہلیت میں شریک ہوا کریں۔ اتنا سننا تھا کہ.حضرت والا نے ڈانٹ کر فرمایا کہ ان کاموں کے لیے کسی مُلّا روحی بدعتی کو بلالو، میں یہاں دین بیچنے نہیں آیا ہوں اور حضرت والا نے استعفا داخل فرمادیا۔ اس کے بعد مولانا ابوبکر صاحب مرحوم جو حضرت مولانا مکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحب زادے تھے،انہوں نے جون پور اپنے مدرسے میں حضرت والا کو درس و تدریس کے لیے بلالیا۔ حضرتِ والا اس مدرسے میں تقریباً پانچ سال تک بحیثیتِ صدر مدرس درس دیتے رہے۔ حضرتِ والا کے قویٰ چوں کہ جوانی میں بہت عمدہ تھے، اس لیے صبح تا شام ’’بخاری‘‘، ’’ترمذی‘‘ و دیگر صحاح کے علاوہ معقول و منقول کو ملاکر سولہ اسباق پڑھاتے تھے اور ایک بجے رات تک مطالعہ کرتے تھے۔ اسی زمانے میں حضرت مولانا میاں سید اصغر حسین صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی جون پور میں مدرس تھے۔روحانی ولادت،یعنی بیعت وارادت جون پور میں درس و تدریس ہی کے زمانے میں حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ