معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
خطاؤں کا تدارک کرتے رہتے ہیں۔ محبت سب ادب سکھادیتی ہے۔ عاشق کی شان ہی اور ہوتی ہے ؎ عاشقِی چیست بگو بندۂ جاناں بودن عاشقی کیا ہے، کہہ دو کہ محبوب کا غلام ہوجانا۔ ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سر زاہد نہیں یہ سر سرِ سودائی ہے اور محبت سے بندہ کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتا ہے، اس راہ کے اندر محبت والا بہت جلد بن جاتا ہے۔محبّت کے ثمرات مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ جسم خاک از عشق بر ا فلاک شد کوہ در رقص آمد و چالاک شد اللہ اللہ عِشق کا فَیض و کرم خاک کا افلاک پر جائے قدم (ازمرتب) عشقِ حقیقی کی برکت سے جسمِ خاکی نے ماورائے افلاک کی سیر کی اور کوہِ طور وجد میں آگیااوربےجان شےیعنی ازقسمِ جمادات ہونے کے باوجود ہوشیار ہوگیا۔ اور اس ہوشیاری کی تفصیل کو دوسرے مقام پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں ؎ بربرونِ کہہ چو زد نور ِ صمد پارہ شد تا در درونش ہم زند