معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ادب کے خلاف ہے، اس میں دعویٰ ہے کہ عذابِ جہنم کو ہم برداشت کرسکتے ہیں، حالاں کہ اس کی ایک چنگاری سے نانی یاد آجائے گی، اس قسم کے مضامین اکثر بے تمیز شعرا گھڑا کرتے ہیں، بے صحبت کا آدمی بے ادب ہوتا ہے، ادب تو ادب والوں سے آتا ہے، ہم جب بندے ہیں تو ہمارے لیے صرف نیاز مندی اور بندگی کی شان زیبا ہے۔ زشت باشد روئے نازیبا و ناز عیب باشد چشم نابینا وباز روئے نازیبا کے لیے ناز بُرا ہے، چشم نابینا کا کھلا رہناعیب ہے۔ پھر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر میں ترمیم فرمائی اور یوں ارشاد فرمایا ؎ اگر بخشیں زہے یاری نہ بخشیں تو کروں زاری کہ اس بندے کی کیوں خواری مزاج یارمیں آئی دنیا کی محبت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو بھولے رہتے ہیں۔خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ میں موت کو مقدم فرمانے کی حکمت حالاں کہ حق تعالیٰ نے موت کو حیات پر مقدم الذکر فرماکر ہمیں تنبیہ فرمادی ہے، دیکھو دنیا میں جا تو رہے ہو مگر موت کو یاد رکھنا: خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ؎ پیدا کیا اللہ نے موت اور زندگی کو تاکہ تمہاری جانچ کرے کہ تم میں کون اچھے اچھے عمل کرتا ہے۔ موت زندگی کے بعد آتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں موت کو زندگی سے پہلے ذکر فرمایا ہے، تاکہ دنیاوی زندگی کے چند روزہ عیش و آرام میں موت کی یاد بندوں کو آخرت سے غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے۔ ------------------------------