معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اور فرمایا کہ حضرت! حق تعالیٰ کی محبّت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اُن بزرگ نے فرمایا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ملو، کچھ دیر کے بعد فرمایا:ابھی اور ملو، کچھ دیر کے بعد پھر فرمایا: ابھی اور ملو، پھر دریافت فرمایا کہ اس رگڑسے کچھ گرمی پیدا ہوئی؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جی ہاں، تو ارشاد فرمایا: اسی طرح کثرتِ ذکر اور تکرارِ ذکر کی رگڑ سے قلب میں حق تعالیٰ کی محبّت پیدا ہوجاتی ہے، کام میں لگا رہنا ہی ایک دن مقصود تک پہنچادیتا ہے۔ شروع میں خواہ کچھ ترقی نہ معلوم ہو، کچھ نفع نہ معلوم ہو، لیکن یقین رکھے کہ نفع ہورہا ہے، عدمِ احساس عدمِ نفع کو مستلزم نہیں۔ بچہ ہر روز نشو و نما میں کچھ نہ کچھ ترقی کرتا ہے، لیکن اس کی یومیہ بڑھوتری کا احساس نہ خود اس بچے کو ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو ہوتا ہے، مگر ایک معتدبہ مدت کے بعد اس کی ترقی و نشو ونما آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی حال باطنی ترقی کا ہے۔ ہر روز کا نفع نہیں محسوس ہوتا، کچھ دن کے بعد پھر اپنے اندر طاعات کی طرف رغبت اور معاصی سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے، اسی کا نام ترقیٔ باطنی ہے۔ انسان کا اپنے ظاہر اور باطن کو شریعت کے مطابق بنانے کی فکر میں لگ جانا ہی اصل ترقی اور کامیابی ہے، کیوں کہ کامیابی اور ترقی کا مدار اتّباعِ سُنّت پر ہے جو امرِ اختیاری ہے۔کشف و کرامت، وجد و استغراق و رقص کی حقیقت باقی کشف وکرامت ،حال اوروجد، رقص و استغراق ، ہوا پراڑنا،پانی پر چلنا وغیرہ کو رضائے حق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ یہ امورِ مذکور امورِ غیر اختیاریہ ہیں اور بندہ غیر اختیاری امور کا مکلّف نہیں ، نیز یہ حالات جوگیوں کو بھی اور فاسق فاجر نقلی فقیروں کو بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ قبور کا عذاب کبھی جانوروں پر بھی منکشف ہوتا ہے، ہوا پر مکھی بھی اُڑتی ہے، پانی پر تنکا بھی تیرتا ہے، ان باتوں کو بندگی سے کیا تعلق؟ بندوں سے اطاعت اور بندگی کا مطالبہ ہے، اور بندگی کا وہی نمونہ پسندیدہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے، اپنی تمام حرکات