معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
جائے۔ وسوسۂ ریا اور چیز ہے ریا اور چیز ہے، جیسے کہ آئینے کے اوپر مکھی بیٹھ جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ اندر مکھی بیٹھی ہوئی ہے، حالاں کہ آئینے کے اندر نہیں ہے، باہر بیٹھی ہے، اسی طرح وسوسہ قلب کے باہر ہوتا ہے مگر سالک کو اندر معلوم ہوتا ہے، پس وہ پریشان ہوتا ہے، یہ سب حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات ہیں۔ حضرت تھانوی کا ۷۱ سال کی عمرمیں اپنے ایک معمول سے رجوع حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ بڑے محقق عارف تھے اور حد درجہ حق پرست تھے۔ حضرت کے یہاں پہلے ضابطہ تھا کہ جب کوئی نووارد آئے تو بدون سوال کیے ہوئے خود بتادے کہ میں فلاں ہوں، فلاں جگہ سے آیا ہوں اور فلاں مقصد کے لیے حاضر ہوا ہوں، لیکن جب حضرت والا کی نظرِ مبارک سے یہ حدیث گزری کہ بِالدَّاخِلِ دَھْشَۃٌ، فَتَلَقَّوْنَہٗ بِمَرْحَبَا؎(للدیلمی)’’نئے آنے والے کو اجنبیت کے سبب ایک قسم کی حیرت زدگی یعنی بدحواسی ہوتی ہے سو اس کی آؤ بھگت کرلیا کرو،‘‘تاکہ اس کی طبیعت کُھل کر مانوس ہوجائے، اور حواس بجا ہوجاویں اور ہر قول و فعل کا موقع سمجھ کر نہ خود پریشان ہو نہ دوسرے کو پریشان کرے۔ حضرت والا نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ حدیث میری نظر سے اس وقت گزری جب کہ میری عمر ۷۱ سال کو پہنچ چکی، اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی برکت سے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ اب آنے والے سے میں خود اس کا مقام اور غرضِ آمد اور اس مقام میں جو مشغلہ تھا اس کو پوچھ لیا کرتا ہوں، اس سے ضروری حالت معلوم ہوجاتی ہے اور وہ مانوس ہوجاتا ہے۔ کیسی حق پرستی تھی کہ اپنا کچّا چٹھا سب بیان فرمادیا۔ اہلِ حق کی یہی شان ہوتی ہے کہ خلق سے نظر اٹھ جاتی ہے صرف رضائے حق مقصود ہوتی ہے۔سالک غیر عارف اور عارف کا فرق سالکِ غیر عارف عبادت کرکے یا وعظ بیان کرکے واہ واہ کا منتظر رہتا ہے اور ------------------------------