معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
گر تو او را می نہ بینی در نظر فہم کن اما باظہار اثر اگر تم ان ظاہری آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھتے ہو تو اللہ کو اللہ کی ان تمام نشانیوں سے پہچان لو جو تمام زمین اور آسمان میں پھیلی پڑی ہیں۔ آفتاب کے لیے کیا دلیل ہے ؎ خود نبا شد آفتابے را دلیل جز کہ نورِ آفتابِ مستطیل آفتاب نکلا ہوا ہو اور کوئی نادان دلیل طلب کرے تو بجز اس کے کوئی دلیل نہ ہوگی کہ اس کا کان پکڑ کر دکھادیا جاوے کہ تمام عالم کو کس نے روشن کر رکھا ہے؟امتناعِ رؤیت فی الدنیا پر ممکنات سے استدلال جب ممکنات میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کو ہم دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں، مثلاً رو ح اور ہوا اور خوشبو وغیرہ وغیرہ اور ان ادنیٰ مخلوقات پر ایمان بالغیب میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، پھر اللہ جو ان تمام مخلوقات کا خالق ہے اس کی ذاتِ پاک پر ایمان بالغیب کے لیے عقل کہاں چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کے اتنے نمونے پیدا فرماکر بندوں پر حجّت قائم فرمادی ہے۔ روح کی لطافت کے سبب جب ہم روح کو دیکھنے سے عاجز ہیں تو جوذات روح کی خالق ہے اس کو ہم اس عالمِ ناسوت میں کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ کیا اللہ کے لطائف نعوذباللہ! رُوح جیسی مخلوق شے سے بھی کم ہے؟نیز اسی طرح ہم سورج کو بھی نصف النہار کے وقت دیکھنے کی قدرت اپنی آنکھوں میں نہیں پاتے ہیں حالاں کہ سورج ایک ادنیٰ مخلوق ہے۔ پھر حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک جو نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ؎ہے، اس کو ہم اس عالم میں کیوں کر دیکھ سکتے ہیں۔ آخر حضرت موسیٰ علیہ السّلام تجلیٔ طور سے بے ہوش ہوکر گر پڑے اور طور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ------------------------------