معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
بادشاہی زیبدآں خلّاق را بادشاہی جملگی عاجز ورا اسی خلّاقِ عالم کے لیے بادشاہی زیبا ہے، تمام سلاطینِ دنیا اس احکم الحاکمین کے سامنے دست بستہ عاجز غلام ہیں۔‘‘ جس طرح اونٹ جب تک پہاڑ تلے نہیں گزرتا اس وقت تک اس کا ناز ’’ہمچو من دیگرے نیست‘‘ کا نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح غیر عارفین بندوں کے نازو پندار کا دعویٰ اور خودبینی کا مرض اسی وقت تک ہے جب تک میاں کو نہیں پہچانا ہے، ابھی اندھیرے میں ہے، اس لیے صرف اپنے کو دیکھتا ہے اور یہ دیکھنا بھی نگاہِ جہل سے ہوتا ہے، اور اگر نگاہِ بصیرت سے اپنے کو دیکھ لے تب بھی حق تعالیٰ کو پہچان لے کہ ایک قطرۂ آبِ منی میں کسی ذاتِ پاک نے ایسا تصرف فرماکر اس کو انسانی قالب میں کردیا،ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمۡ ۚیہ کیا تمہارا رب ہے، دیکھتے نہیں، اندھے ہو؟ اپنے وجود کو دیکھ کر کیوں نہیں اللہ کو پہچان لیتے؟ بات یہ ہے کہ ہمارے حواس غیر اللہ میں مشغول ہیں، اس لیے باطنی ادراک سے بے خبر ہیں۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎اپنے باطن میں راہ پیدا کرلو راہ کن اندر بواطن خویش را دورکن ادراکِ غیر اندیش را مولانا فرماتے ہیں کہ اپنے باطن میں راستہ پیدا کرلے، اور اس ادراک کو دور کردے جو غیر کا تصور کرنے والا ہے۔ کیمیا داری دوائے پوست کن دشمناں را زیں صناعت دوست کن تو اپنے پاس کیمیا رکھتا ہے یعنی عشقِ الٰہی کی نعمت جو تیرے پاس ہے اس میں خاصیت تبدیل اخلاقِ ذمیمہ کی ہے، پس تو پوست یعنی جسم اور اس کی شہوات کی دوا اس کیمیا سے