معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
آں چنانش انس و مستی داد حق کہ نہ زنداں یادش آمد نہ غسق ’’یعنی ان کو حق تعالیٰ نے ایسا اُنس اور سُکر عطا فرمایا کہ ان کو نہ زنداں کا خیال، نہ تاریکی کا جو زنداں میں تھی۔‘‘قصۂ حضرت ایوب حق تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السّلام کو جب طویل بیماری میں مبتلا فرمایا تو جسم میں جو کیڑے پڑگئے تھے ان کی محبت آپ کے دل میں ایسی ڈال دی کہ اولاد کی طرح کیڑوں کو چاہتے تھے۔ ان کی محبّت اس درجے تھی کہ اگر کوئی کیڑا جسم سے باہر نکلتا تو آپ اس کو پکڑ کر اپنے جسم میں رکھ لیتے ۔اسی کو حضرت عارف باللہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ دادہ من ایوب رامہرِپدر بہر مہمانئ کرماں بے ضرر یعنی میں نے ایوب علیہ السّلام کے قلب میں کیڑوں کی مہمانی کے لیے باپ کی سی محبّت دی تھی، یعنی اولاد کی طرح سے کیڑوں پر اُن کو شفقت عطا فرمائی۔ پھر جب حضرت ایوب علیہ السّلام کے ابتلا اور امتحان کا زمانہ ختم ہوا تو آپ فرمایا کرتے تھے: نعمتِ صحت پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں،لیکن حق تعالیٰ کی اُس مزاج پُرسی کی لذّت یاد آتی ہے جو صبح و شام دریافت حال فرمانے کے لیے ارشاد فرماتے تھے کہ اے ایّوب! کیسا مزاج ہے؟ صبح کی ہم کلامی شام تک ایک خاص حالتِ سُکر میں رکھتی تھی اور شام کی ہم کلامی صبح تک اسی کیف میں مستغرق رکھتی تھی،اب وہ لذّت میاں کی ہم کلامی اور مزاج پُرسی کی نہ رہی۔ اکبر الٰہ آبادی نے خوب کہا ہے کہ ؎ عیادت کو آئے شفا ہوگئی علالت ہماری دوا ہوگئی