معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حضرت نوح کا ادب اور ان کی عبدیتِ کاملہ حضرت نوح علیہ السّلام کا بیٹا کنعان جب کفر کے سبب سے طوفان میں غرق ہونے لگا تو حضرت نوح علیہ السّلام نے اس کے غرق ہونے سے قبل اس امید پر کہ شاید حق تعالیٰ اپنی قدرت سے اس کے دل میں ایمان القاء فرمادے اور یہ ایمان لے آوے، حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے رب! میرا یہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور آپ کا یہ وعدہ بالکل سچا ہے کہ گھر والوں میں جو ایمان والے ہیں ان کو بچالوں گا، اور گویہ کنعان سرِدست ایمان والا اور مستحقِ نجات نہیں ہے لیکن آپ احکم الحاکمین ہیں اور بڑی قدرت والے ہیں: رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۴۵﴾ اے میرے رب! میرایہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ احکم الحاکمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نوح! یہ شخص ہمارے علمِ ازلی میں تمہارے ان گھر والوں میں نہیں جو ایمان لاکر نجات پاویں گے، یعنی اس کی قسمت میں ایمان نہیں ہے، بلکہ یہ خاتمے تک تباہ کاریعنی کافر رہنے والا ہے۔ سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں،یعنی ایسے امرِمحتمل کی دُعامت کرو، میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم آیندہ نادان نہ بن جاؤ: فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۴۶﴾؎ (اے نوح) مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کروجس کی تم کو خبر نہیں میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادان نہ بن جاؤ۔ حضرت نوح علیہ السّلام نے جب شانِ عتاب دیکھی تو کانپ گئے، اور دعا میں جو کلمات عرض کیے ان کے اندر کس درجہ ادب اور عبودیت ہے، فوراً عرض کیا کہ: ------------------------------