معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اسباب و تدابیر کا درجہ اور اُن کی صحیح حقیقت میں تدابیر اور اسباب کو بھیک کے پیالے سے تشبیہ دیتا ہوں، یعنی تدابیر کا درجہ ایسا ہی ہے جیسے بِھک منگا اپنا ٹوٹا پھوٹا پیالہ لے کر بادشاہ کے دروازے پر حاضر ہوجائے ، تو ظاہر ہے کہ بھیک ملے گی کس میں، پس تدابیر کو اختیار کرنا ایسا ہی ہے کہ بندہ بھیک کا پیالہ لے کر میاں کے دروازے پر بھیک مانگنے کے لیے حاضر ہوگیا۔ اب اس تدبیر کا پھل کون دے گا؟ جو اس تدبیر کا بھی مالک اور خالق ہے، وہی اس تدبیر میں اثر پیدا کرتا ہے اور وہی تدبیر کی آغوش میں مقصود کا پھل رکھ دیتا ہے۔تدابیر کے مؤ ثر بالذات نہ ہونے پر استدلال یہی وجہ ہے کہ ایک ہی تدبیر دو شخص کسی مقصود کے لیے اختیار کرتے ہیں لیکن ایک کامیاب ہوجاتا ہے دوسرا ناکام رہتا ہے۔ اگر یہ تدابیر فی نفسہٖ اپنی ذات میں اثر رکھتیں تو دونوں کو کامیاب اور فائزالمرام ہونا چاہیے تھا، مگر مشاہدات روز مرّہ کے ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ایک شخص کئی سال محنت کرکےمثلاً سلائی کا کام سیکھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کو سلائی میں روزی نہیں دیتے ہیں، مجبوراً وہ دوسرا طریقہ روزی کے لیے اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس راہ سے اس کو روزی عطا فرماتے ہیں۔یہ حیرت میں سوچتا ہے کہ اتنی محنت سے سلائی کا کام سیکھا تھا لیکن کیا معلوم تھا کہ میری روزی نجّاری میں تھی، اگر معلوم ہوتا تو سلائی میں اتنی مشقت اور اپنی عمر نہ کھوتا، مگر اللہ تعالیٰ بندوں کو دکھاتے رہتے ہیں ، تاکہ بندوں کو اپنا جہل اور اپنی عجز کا علم الیقین حاصل ہوجائے۔ اسی طرح ایک شخص انگریزی تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرتا ہے اور دل میں یہ خیال اس کو ہر وقت مسرور رکھتا ہے کہ کسی بڑی ملازمت کی کرسی نشینی حاصل ہوگی، لیکن اللہ تعالیٰ اس کی روزی ملازمت کی راہ سے نہیں عطا فرماتے، مجبوراً یہ شخص کسی چیز کی دوکان کھول لیتا ہے اور اس دُوکان سے اس کو روزی ملتی ہے۔یہ شخص