معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
لیلیٰ کی گلی میں مقیم ہے اس کے پَیر کی خاک شیرانِ عظیم سے بہتر ہے ؎ نسبتِ خود بسگت کر دم و بس منفعلم زانکہ نسبت بہ سگے کوئے تو شدبے ادبی ایک عاشق کہتا ہے کہ اے محبوب! میں نے ادبِ عشق سے اپنی نسبت آپ کے کتّے کی طرف کی، لیکن پھر بھی مجھے اس انتساب سے شرمندگی ہے، کیوں کہ آپ کی گلی کے کتّے کی طرف بھی نسبت کرنا طریقِ عشق میں بے ادبی ہے۔ عشق کا راستہ بہت ادب کا راستہ ہوتا ہے۔ طُرُقُ الْعِشْقِ کُلُّھَااَدَبٌ یعنی عشق کا ہرا یک راستہ سرتاپا ادب کا راستہ ہے۔ ایک مرد ار لیلیٰ کے عشق میں مجنوں نادان کا یہ حال ہوگیا تھا، یعنی کس درجہ ادب کا غلبہ ہوگیا! تو پھر عشقِ مولیٰ تو عجیب وغریب چیز ہے ؎ عشقِ مولیٰ کے کم از لیلیٰ بود گوئے گشتن بہرِ او اولیٰ بود مولیٰ کا عشق لیلیٰ سے کب کم ہوسکتا ہے کہ لیلیٰ فانی اور مخلوق ہے اور مولیٰ باقی اور خالق ہے پس ان کے لیے سر تا پا تابع دار ہوجانا نہایت بہتر ہے۔ اللہ کا عشق جس پر اثر کرجائے اس کا کیا حال ہوگا؟ وہ اللہ جس نے لیلیٰ کو لیلیٰ بنایا تھا اور لاکھوں کو لیلیٰ بناتا ہے اور پھر خاک میں ملادیتا ہے، اس کی محبّت لیلیٰ کی محبّت سے کب کم ہوسکتی ہے ؎ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند عاشق اللہ تعالیٰ کے راستے کو بہت جلد قطع کرلیتا ہے، کیوں کہ عشقِ کامل معرفتِ کاملہ سے پیدا ہوتا ہے۔معرفت سے محبّت پیداہونے کی ایک عجیب مثال معرفتِ الٰہیہ کے لیے محبتِ الٰہیہ لازم ہے اور محبت موقوف ہے معرفت پر۔