معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حیرت زدہ سوچتا ہے کہ کاش! معلوم ہوتا کہ میری روزی اسی دوکان میں ہے تو میں اتنی عمر اور اتنا سرمایہ دوکان ہی میں صَرف کرتا۔تخّلفِ اسباب سے مؤثرِ حقیقی کی پہچان مگر اللہ تعالیٰ دکھاتے رہتے ہیں تاکہ بندے اپنے جہل اور عجز کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور سمجھ لیں کہ جب ہم اس طور سے عاجز ہیں تو یقیناً کوئی ایسی ذاتِ پاک ہے جو ان اسباب اور تدابیر کی خالق اور مالک ہے اور سارے جہاں کا انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب میاں چاہتے ہیں تو ان اسباب و تدابیر کے ذریعے مقصود تک پہنچادیتے ہیں اور جب حق تعالیٰ کو منظور نہیں ہوتا ہے تو یہ تدابیر و اسباب بالکل بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ تدابیر اور اسباب مطلقاً ہمارے اختیار میں نہیں دیے گئے ہیں،صرف ان کا اختیار کرنا تو ہمارے اختیار میں دے دیا ہے لیکن ان میں اثر پیدا کرنا اپنے اختیار میں رکھا ہے۔ ان اسباب و تدابیر کے پردے میں ہاتھ ان ہی کا کام کر رہا ہے، مگر اہلِ ظاہر اس سے بے خبر ہیں اور عارفین اپنی نگاہِ بصیرت سے دیکھ لیتے ہیں کہ ان اسباب و تدابیر کی باگ ڈور حق تعالیٰ ہی کے دستِ قدرت میں ہے۔کما قال العارف الرومی رحمہ اللہ ؎ ازمسبِّب می ر سد ہر خیر و شر نیست اسباب و وسائط را اثر مولانا فرماتے ہیں کہ ہر خیر و شر کے مالکِ حقیقی حق تعالیٰ ہی کی ذاتِ پاک ہے۔ اسباب ووسائط میں فی نفسہٖ کچھ اثر نہیں ہے،یہ اسباب و تدابیر اپنا کام اسی وقت انجام دیتے ہیں،جب ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے اذن اور اشارہ مل جاتا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ اسباب مردہ ہیں، لیکن حق تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق غلامی کرنے میں زندوں جیسا ہے ؎ خاک و باد و آب و آتش بندہ اند با من و تو مردہ باحق زندہ اند