معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ایک بزرگ کی حکایت ایک واقعہ حضرت شاہ صاحب گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کا یاد پڑا۔ ایک دفعہ نواب رامپور نے اپنے کسی بے تکلّف دوست سے جو عالم بھی تھے، درخواست کی کہ اگر آپ حضرت شاہ صاحب کو میرے ہاں لے آویں تو میں ایک لاکھ روپیہ نذر پیش کروں گا۔ مولوی صاحب گنج مراد آباد حاضر ہوئے، حضرت کی مجلس میں جب مولوی صاحب پہنچے تو شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ علوم و معارف بیان فرمارہے تھے، انہوں نے ذرا موقع پاکر عرض کیا کہ حضرت! آپ ایک بار رامپور تشریف لے چلیں، نواب صاحب آپ کی زیارت کے متمنی ہیں اور فرمایا ہے کہ اگر شاہ صاحب میرے ہاں تشریف لائیں گے تو میں ایک لاکھ روپیہ نذر پیش کروں گا۔ شاہ صاحب نے سن کر فرمایا کہ اجی! لاکھ روپے پر ڈالو خاک اور میری بات سنو، پھر شاہ صاحب اپنے علوم و معارف کے بیان کرنے میں مشغول ہوگئے، جب فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب! سنیے ؎ جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جامِ جم دیکھتے ہیں یہ ہے اصلی علم کی شان جو دل کو تمام ماسویٰ سے مستغنی کردیتا ہے۔ ہمارےمرشد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے چھوٹے بڑے نہ جانے کتنے منی آرڈر واپس کیے تھے اور ایک بار ایک لاکھ روپیہ ہدیہ قبول کرنے سے عذر فرمادیا، ذرا بھی جہاں دین کی توہین اور تحقیر کا شائبہ محسوس کرتے بڑے بڑے امراء کا مزاج درست فرمادیتے۔ رمزی اٹاوی نے خوب لکھا ہے ؎ نہ لالچ دےسکیں ہر گز تجھے سکّوں کی جھنکاریں ترے دستِ توکّل میں تھیں استغناء کی تلواریں سکھائے فقر کے آداب تو نے بادشاہی کو جلالِ قیصری بخشا جمالِ خانقاہی کو