معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
عارف عبادت کرکے یا وعظ بیان کرکے حق تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے کہ اے اللہ! جو کچھ میرے نفس کی شرکت ہوگئی ہو اس کی معافی چاہتا ہوں۔ حسنات کرکے شرمندہ ہونا اور استغفار کرنا یہ عارفین کا کام ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے ان کو اپنی ہر غلامی ناقص معلوم ہوتی ہے اور اعمالِ حسنہ کرکے خود کو کچھ سمجھنا یہ جاہل عابدوں کا کام ہے۔ بے صحبت اور تربیت کے اہلِ علم بھی نفس کے ان مکائد سے محفوظ نہیں رہ سکتے، کسی کو مال کا پندار ہے، کسی کو جاہ کا پندار، کسی کو علم کا پندار ہے۔اپنی فنائیت کا دعویٰ کرنا خود تکبّر کی نشانی ہے کسی کو عبادت کا پندار ہے اور کسی کو اس امر کا پندار کہ میں پندار سے نجات پاگیا ؎ گفتی بت پندار شکستم رستم ایں بت کہ پندار شکستی باقیست اے مخاطب! تو نے کہا کہ میں نے پندار کے بت کو توڑ دیا اور میں خلاصی پاگیا، تو تیرا یہ دعویٰ کہ میں نے پندار کے بت کو توڑ دیایہ خود ایک بت باقی رہ گیا ہے۔یہ راستہ بڑا نازک ہے یہ راستہ بڑا نازک راستہ ہے ، نفس کی شرکت ایسے طور پر ہوجاتی ہے کہ آدمی کو پتا نہیں چلتا ہے۔ اصرار علی المعصیت کے ساتھ صاحبِ نسبت ہونے کا دعویٰ باطل ہے اسی طرح بعض لوگ نافرمانیوں کو اپنے احوال اور کیفیات کی بنا پر نسبت کے لیے مضر نہیں سمجھتے، جیسا کہ اہلِ باطل اپنے وجد اور غلبۂ شوق سے بقائے نسبتِ باطنیہ پر استدلال کرتے ہیں۔ ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اصرار علی المعاصی کے ساتھ بھی اگر ذوق اور کیفیت باقی رہے تو یہ استد راج ہے، ہر گز علامتِ قبول نہیں، کیوں کہ نسبت کی تعریف یہ ہے کہ عبد کی جانب سے حق کے ساتھ