معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ؎ بات یہ ہے کہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں، بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔بصیرتِ قلب کا ثبوت دل کو اندھا فرمانا ثبوت ہے دل کی بینائی پر۔ کافروں کے دل اندھے ہوتے ہیں، مؤمنینِ کا ملین کے دل بینا ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے صوفیائے عارفین کو’’دُور بینانِ بارگاہِ الست‘‘ کہتے ہیں۔ جن کے پاس صرف ظاہری آنکھیں ہیں وہ اشیاء کے باطنی حقائق سے بے خبر ہیں۔ظاہری حیاتِ دنیا اور اس کی حقیقت یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ وَ ہُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ﴿۷﴾ ؎ حق تعالیٰ کافروں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ : یہ لوگ صرف دنیوی زندگانی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے غافل ہیں۔ دنیا فانی کے چند روزہ نقش و نگار پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ موت اور بعد الموت کا کبھی خیال بھی نہیں گزرتا۔ دنیا کی حقیقت کو ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خوب بیان فرمایا ہے۔ ایک بار خواجہ صاحب کا اور ہمارا لکھنؤ میں ساتھ ہوا، شہر کے اندر وائسرائے کی آمد تھی، استقبال کے لیے راستے کاغذی پھولوں سے خوب سجائے گئے تھے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس خوشنمائی اور سجاوٹ کو دیکھ کر مجھ سے فرمایا کہ دنیا کے اس عارضی اور فانی نقش و نگار پر اس وقت ایک شعر وارد ہوا ہے ؎ ------------------------------