معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
اسی کا نام مجاہدہ ہے، اور اسی مجاہدے سے بندہ اللہ تک پہنچتا ہے، لیکن چوں کہ مریض کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے اس لیے اپنا علاج خود نہیں کرسکتا، کسی اللہ والے سے تعلق اصلاح کے لیے کرنا فرض ہے، جب اصلاحِ نفس فرض ہے تو اصلاحِ نفس جس کے تعلق اور جس کی صحبت پر موقوف ہے وہ بھی فرض ہے، البتہ مرید ہونا سنّت ہے فرض نہیں ہے، جس کا جی چاہے سنّت کی برکت کے لیے بیعت بھی ہوجائے۔خشیتِ حق بقدرِ معرفتِ حق پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت جس قدر حاصل ہوتی ہے اسی قدر اس معرفت کے لیے اللہ تعالیٰ کی خشیت لازم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اے لوگو! میں تم سب سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ جاننے والا ہوں، اس سبب سے تم سب سے زیادہاللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں،اِنِّیْ اَعْلَمُکُمْ بِاللہِ وَاَتْقَاکُمْ؎ میں تم سب سے زیادہ عالم باللہ ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا تناول فرماتے تھے تو ارشاد فرماتے تھے کہ اَنَااٰکُلُ کَمَایَأْکُلُ الْعَبْدُ؎ میں اس طرح بیٹھ کر کھاتا ہوں جس طرح غلام بیٹھ کر کھاتا ہے۔ حُضورﷺکا اپنی شانِ عبدیت کو شانِ رسالت پر مقدم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبدیت اور شانِ غلامی کو شانِ رسالت پر مقدم فرماکر امّت کو بہت بڑا سبق پڑھادیا: اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں عرض کرتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ تعالیٰ کا بندہ اور رسول ہے۔ بندگی کو مقدم فرمایا، اس کے اندر تعلیم ہے کہ میری امّت کے لوگو! نبوّت کا دروازہ تو ختم ہوچکا ہے لیکن ولایت کا دروازہ قیامت تک کھلا رہے گا، تم میں بڑے بڑے درجے کے اولیائے اللہ پیدا ہوں گے، مگر بندگی کا یہ سبق ------------------------------