معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
فرماتے ہیں کہ’’ ڈھول کی آواز کی طرح میرے علم و فضل کا شہرہ دور تک پہنچا ہوا ہے، لیکن ڈھول کے اندر جو خلا کا عیب ہے وہ چھپا ہوا ہے۔‘‘ عارفین اپنے عیوب پر ہر وقت نگاہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے باخبر بندوں کی اسی شان کو بیان فرماتے ہیں: وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿۶۴﴾ وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ﴿٭ۖ۶۵﴾ اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۶۶﴾؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: جو ہمارے باخبر بندے ہیں یعنی جنہوں نے ہماری عظمت وکبریائی کو پہچان لیا ہے ان کی شان یہ ہے کہ راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں، مگر ان کو اپنی عبادت پر ناز نہیں ہے، میری عظمت کے سامنے اپنی طاعات پر ان کی نگاہ نہیں ہے، یہی دلیل ہے کہ یہ مجھ سے باخبر ہیں۔ میری عظمت اور جلالتِ شان کے استحضار سے ایسے لرزاں اور ترساں ہیں کہ اتنی فرماں برداری کے باوجود اپنے کو جہنم کے لائق سمجھ کر مجھ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھیے ، کیوں کہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے۔ بے شک وہ جہنم بُرا ٹھکانا ہے۔ بے خبر بندے تو اتنی شاباشی اور تعریف پر اور اس قدر تقویٰ اور طاعات پر نہ جانے اپنے کو کیا سے کیا سمجھ لیں اور انتظار کرنے لگیں کہ شاید جبرئیل علیہ السّلام وحی لے کر تشریف لارہے ہیں۔اللہ والوں کی پانچویں صفت آگے فرماتے ہیں:یہ حالت تو ان کی طاعاتِ بدنیہ میں ہے اور طاعاتِ مالیہ میں طریقہ یہ ہے: وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾ ------------------------------