معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
لِیَعْبُدُوْنِ کی تفسیر لِیَعْرِفُوْنِ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہماری زندگی کا مقصد معرفت ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟اللہ تعالیٰ کی پہچان کا طریقہ کیسے پہچانیں؟ تو اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں: اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا ﴿۵۹﴾ رحمٰن کی شان کو کسی باخبر سے پوچھو۔ یہ ترجمہ ہمارے مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے،عجیب اور قابلِ وجد ترجمہ ہے۔ پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ باخبر لوگ کیسے پہچانے جائیں؟ وہ علامات کیا ہیں جن کو دیکھ کر ہم سمجھ لیں کہ یہ بندہ اللہ تعالیٰ کا باخبر ہے؟اس سوال کا جواب اسی آیت سے چند آیتوں کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:قرآن کی روشنی میں عِبَادُالرَّحمٰن کی پہچان کی پہلی صفت وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا اور حضرت رحمٰن کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے مزاج میں تواضع ہے، تمام امور میں، اور اسی کا اثر چلنے میں بھی ظاہر ہوتا ہے، کیوں کہ یہ حق تعالیٰ کی عظمت سے باخبر ہیں، عظمت ِالٰہیہ کی معرفت اور اس کے استحضار سے دبے ہوئےچلتے ہیں۔ ہر وقت دھیان بندھا ہوا ہے کہ میاں دیکھ رہے ہیں، ان کے سامنے چل رہا ہوں۔ اس احسانی کیفیت کے اثر سے ان کی چال سے غلامی کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی رفتار کا ہون یعنی تذلّل اس امر پر مخبری کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی بندگی اور حق تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کو پہچان لیا ہے۔ عَلَی الۡاَرۡضِ فرمایا ہے، جس میں لطیف اشارہ یہ ہے کہ زمین تو چلنے کے لیے پیدا ہی کی گئی ہے، تمہارے قدموں سے اس کی پائمالی ہوتی ہی ہے، لیکن تم نیت اس کی پائمالی کی نہ کرو،