معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِمقصدِ حیات اور اقتضائے فِطرتِ بشریّہ وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ؎ ’’اور میں نے جن اور انسان کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے لِیَعْبُدُوْنِ کی تفسیر لِیَعْرِفُوْنِ سے فرمائی ہے ؎ اور صاحبِ جلالین نےاپنی تفسیر’’جلالین‘‘ میں اسی کو لیا ہے۔ پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتادیا کہ ہم نے جِن اور انسان کو اپنی معرفت و پہچان کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ ایک حدیثِ قدسی سے اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ؎ حدیثِ قدسی اس حدیث کو کہتے ہیں جس کو حق تعالیٰ نے فرمایا ہو اور راوی اس کے سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایک خزانۂ مخفی تھا۔ پس مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوئی کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔اسی آیتِ کریمہ کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر میں بیان فرمایا ہے ؎ ماخلقت الجنّ والانس ایں بخواں جز عبادت نیست مقصود از جہاں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ حق تعالیٰ کی طرف سے حکایت فرماتے ہیں کہ میں نے جِنّ اور ------------------------------