معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اس آیت میں اہلِ علم کو حق تعالیٰ نے اہلِ ذکر سے تعبیر فرمایا ہے، جس میں اس بات کی تعلیم فرمادی کہ ان اہلِ علم سے دین سیکھا کرو جو اہلِ ذکر ہیں۔ یعنی جوذکرِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے ہیں، غلبۂ ذکر اللہ سے اُن پر اللہ کی محبت کا ایک ایسا حال غالب رہتاہے جس سے وہ خود بھی اللہ کی محبت میں مست رہتے ہیں اور جو اُن مَستوں کو دیکھتا ہے اس کو بھی اللہ یاد آجاتا ہے۔ پس دین کی نعمت اور لذت کو کسی بینا سے پوچھو جس کے پاس نور ہے، نور والوں سے دین کی قدر و منزلت پوچھو ؎ بنگر ایشاں را کہ مجنوں گشتہ اند ہمچو پروانہ بوصلش کشتہ اند ان کو دیکھو کہ اللہ کی محبت میں کیسے مجنوں ہورہے ہیں اور مثل پروانہ کے کمالِ قرب سے کشتہ ہیں۔ اب یہاں پر یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ نورانی افراد اتنے انسانوں میں کیسے پہچانے جائیں۔دل میں نور آنے کا مفہوم اور اس نور کا کیا مفہوم ہے، کیا اُن کے دلوں میں کوئی لالٹین یا گیس جلتی ہوتی ہے، جب نور کا محل قلب ہے اور کسی کے قلب کو ہم دیکھ سکتے نہیں تو دو ہی صورتیں ہیں:یا تو صاحبِ نور خود اپنے نور کا مدعی ہو یا صاحبِ نور کی کچھ علاماتِ خاصہ متعین ہوں، اور چوں کہ شقِ اوّل میں ہر دعویٰ اپنے صدق اور کذب کا احتمال رکھتا ہے اس لیے صورتِ اُولیٰ غیر مفید ہے، پس دوسری صورت باقی رہ گئی، یعنی کچھ ایسی علامات بتائی جائیں کہ جن کو دیکھ کر ہم فیصلہ کرلیں کہ فلاں بندہ نور والا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے، کیوں کہ اس زمانے میں اہلِ حق اور اہلِ باطل بہت خلط ملط ہور ہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے پاس صحیح علم موجود نہیں ہے۔