معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مقدمہ ازجناب مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب خادمِ خاص حضرت شاہ پھولپُوری رحمۃ اللہ علیہ خلیفۂحضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم یہ کتاب ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ دراصل حضرت مولانا شاہ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی سولہ سال کی مختلف مجالس کے ارشادات و تقاریر کا مجموعہ ہے، جس کو احقر قلم بند کرلیا کرتا تھا۔ یہ علوم و ارشادات بعض تو درس بخاری شریف کے وقت میں ہوئے، بعض بصورتِ جلسہ و خطابِ عام ہوئے۔ بعض مجلسِ احبابِ خصوصی میں بصورتِ ملفوظات ہوئے۔ بعض علوم درسِ مثنوی مولائے روم کے وقت ارشاد ہوئے اور بعض علوم و معارف اس وقت کےہیں کہ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ تنہا تلاوت و ذکر میں مشغول ہوتے تھے اور اچانک ارشاد فرماتے کہ حکیم اختر! احقر عرض کرتا: جی حضرت! ارشاد فرماتے کہ اس آیت کے متعلق یا اس حدیث کے متعلق حق تعالیٰ نے علمِ عظیم عطا فرمایا ہے، پھر تقریر فرماتے اور حکم فرماتے کہ اس مضمون کو لکھ لو۔ اکثر جب کسی وارد علمیہ کی تقریر فرماتے تو ارشاد فرماتے کہ یہ نعمتِ علم ایسی نعمت ہے کہ ہفت اقلیم کی دولت اس کے سامنے ہیچ ہے اور فرماتے کہ حضرت والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ سب کچھ فیض ہے۔ حضرت والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ان علومِ عظیمہ کو احقر قلم بند کرکے جب سناتا تو بہت مسرور ہوتے اور بعض احباب سے غائبانہ فرماتے کہ حکیم اختر ہمارے علومِ غامضہ کو بھی خوب سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس کو باحسن طریق قلم بند بھی کرلیتے ہیں۔ایک بارحضرت مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ(صدردارالعلوم کراچی) نے حضرت والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ حضرت! حکیم اختر کوماشاء اللہ حق تعالیٰ نے تحریرِ مضامین کا خوب سلیقہ عطا فرمایا ہے، تو حضرتِ والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف رخ فرماکر ارشاد فرمایا کہ خبردار! تم اپنا کوئی کمال مت سمجھنا (یہ علاجِ نفس کے لیے) پھر تنہائی میں احقر سے ارشاد فرمایا کہ یہ استاد کا فیض ہوتا ہے، اپنی طرف نسبت کبھی نہ کرنی چاہیے۔