معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کیوں کہ توحید کا اعلان تمام باطل معبودوں کے لیے اعلانِ جنگ ہے۔ پس قرآن کا مثل کسی کا نہ لاسکنا اللہ تعالیٰ کے وجود پاک کی اور وحدانیت کی اور رسالت کی کھلی دلیل ہے۔حق تعالیٰ کے تصّرفاتِ عجیبہ نیز روئے زمین پر حق تعالیٰ شانہٗ کے تصرّفاتِ عجیبہ اور ان کی نشانیاں اتنی پھیلی پڑی ہیں کہ ہم ان کا احاطہ و شمار نہیں کرسکتے ہیں، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ ؎ اور یقین لانے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو تم کو دکھائی نہیں دیتا؟ اندھے ہو، کیا سجھائی نہیں دیتا کہ اتنا بڑا انسانی پیکرلیے ہوئے چلتے پھرتے اور بولتے ہو؟ کون تم کو چلاتاپھراتا اور بلواتا ہے؟انسان اتنا بڑا اپنا وجود لیے ہوئے جو چلتا پھرتا اوربولتا ہے تو یہ خود مجسم حق تعالیٰ کے وجود کی دلیل ہے،کیوں کہ مٹی کا چلنا پھرنا، کلام کرنا عجیب قدرت کی نشانی ہے۔ انسان جو غذائیں استعمال کرتا ہے تو ہر لقمے میں جسم کے ہر ہر عضو کی غذا مخلوط ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے اس لقمے میں جہاں جہاں کی غذائیں ہوتی ہیں وہاں وہاں ان کو پہنچاتے ہیں۔ کیا مجال کہ آنکھوں کی غذا کانوں میں پہنچ جائے یا کانوں کی آنکھوں میں پہنچ جائے۔ آنکھوں کی بینائی بننے والی غذا کو آنکھوں میں ، کانوں کی قوتِ سماعت بننے والی غذا کو کانوں میں،قوتِ ذائقہ اور قوّتِ گویائی بننے والی غذا کو زبان میں، سونگھنے کی قوّت بننے والی غذا کو ناک میں،عقل اور فہم بننے والی غذا کودماغ میں، الغرض جہاں کی جو غذا ہوتی ہے حق تعالیٰ اپنی قدرت سے اس کو وہیں پہنچاتے ہیں، مجال نہیں کہ سرِمُو اس میں فرق ہوجائے۔ مثلاً :بینائی والی غذا کان میں پہنچ جائے اور کان دیکھنے لگے۔ اور سماعت والی غذا آنکھوں میں آجائے اور آنکھیں سننے لگیں۔ اسی طرح سونگھنے کی قوّت بننے والی غذا منہ میں پہنچ کر قوّتِ ذائقہ بن جائے۔ ------------------------------