معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
از و فورِ غم بروں آید فغاں نالۂ عشقم رود تا آسماں اور شدتِ غم سے میرے دل سے آہ نکل رہی ہے اور میرے نالہائے عشق آسمان تک جارہے ہیں۔ لطفِ تو چوں یاد می آید مرا بوئے تو جانم بجوید در سرا اور اے مرشد !جب آپ کی محبت اور الطاف وکرم مجھے یاد آتے ہیں تو میری جان آپ کی خوشبو کو اس دنیا میں دیوانہ وار تلاش کرتی ہے۔ حیف کہ آں شیرِ حق از ما برفت در بیا بانِ عدم خود را نہفت افسوس کہ وہ شیرِ حق (یعنی جری علی اظہار الحق وبری از مداہنت و کتمان الحق) ہم سے جدا ہوگیا، اور بیا بانِ عدم میں اپنے کو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ کرلیا۔ کرد ما را از غمِ فرقت یتیم رفت خود فی باب جنّٰت النعیم افسوس کہ میرے مرشد محبوب نے ہم سب کو غِم جدائی دے کریتیم کردیا اور خود باب جنّٰت النعیم میں تشریف لے گئے۔ حضرتِ والا قدس سرہ العزیز کی تاریخ وفات بھی دَخَلَ فِیْ بَابِ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ہے(۱۳۸۳ھ،یہ تاریخ وفات نادم جالندھری نے نکالی جو ایک عربی مدرسہ کے طالب علم ہیں۔) حق تعالیٰ کا صد ہزار شکر ہے کہ حضرت مرشدِ پاک کی جدائی کے غم میں جو میری قلبی کیفیات تھیں وہ بَاَحْسن طریق اس مثنوی میں من جانب اللہ برنگِ مثنوی رومی رحمۃ اللہ علیہ بیان ہوگئے اورا ن اشعار کا ترجمہ بھی عجیب والہانہ انداز سے ہوگیا ۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕوَاللہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیْمِحق تعالیٰ اپنی رحمت سے