معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
میرے ساتھ حضرتِ والا کی خدمت میں آخر تک شریک رہے، انہوں نے اور حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب مدظلہٗ نے یہی مشورہ دیا کہ اب حضرت والا کا آرام سے گھر ہی پر خدا کے بھروسے پر علاج کرو، بفضلہٖ تعالیٰ حضرت والا خوب مجلس میں ارشاداتِ عالیہ سے افادہ فرمانے لگے کہ وقتِ رحلت قریب آ گیا اور آخری مجلس مؤرخہ ۳؍اگست ۱۹۶۳ء بروز شنبہ بعد نمازِ عصر جو فرمائی وہ عجیب مجلس تھی، خوب علمائے سوء کو ڈانٹا اور عصر سے مغرب تک بآوازِ بلند حاضرینِ مجلس کو اپنے کلماتِ حسنہ سے مستفید فرماتے رہے۔تقریباً عشاء کے وقت حکیم اسعد اجمیری صاحب اور مولوی نور احمد صاحب ناظم دارالعلوم بغرضِ عیادت و مزاج پرسی حاضر ہوئے۔ حضرت والا نے مولوی نور احمد صاحب سے ارشاد فرمایا کہ قبر میں کتنی دیر منکر نکیر سوالات کرتے ہیں اور برزخ میں کتنے دن رہنا ہوتا ہے، اور میں ایک بات بھول گیا ہوں جو مجھے کرنی چاہیے تھی، اب اس کا کیا معاملہ ہوگا؟ ان سوالات کے جوابات مفتی محمد شفیع صاحب سے دریافت کرکے مطلع کرنا۔ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ آخری مجلس تھی۔ اسی شب میں تقریباً ۴ بجے تھے کہ حضرت والا کے بائیں حصۂ جِسم پر فالج گرگیا۔ احقر نے دیکھا کہ حضرت والا کی دماغی حالت غیر طبعی ہورہی ہے اور زبان کانپ رہی ہے۔ مجھ سے کانپتی ہوئی زبان سے ارشاد فرمایا کہ کلمہ پڑھادو۔ احقر نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِپڑھا۔ حضرت والا نے بھی احقر کے ساتھ کلمۂ طیبّہ کا ورد فرمایا اور کلمہ پڑھتے ہی ہمیشہ کے لیے حضرتِ والا کی زبانِ مبارک خاموش ہوگئی۔ پھر اشارے سے بات فرمانے لگے۔ دو دن تک اشارے سے بات فرماتے رہے، بعدہٗ بالکل غشی کا عالم طاری رہنے لگا۔ غذا تین چار دن تک بمشکل ہضم ہوئی، پھر صرف انجکشن سے گلوکوز چڑھنے لگا۔ جناب ڈاکٹر عبدالصمد صاحب کانپوری مدظلہٗ کا فالج گرتے ہی علاج شروع ہوگیا، ڈاکٹر صاحب موصوف بھی حضرت والا کے پرانے محبّین و مخلصین میں سے تھے۔ انہوں نے بھی بڑی مستعدی سے حضرت والا کا معالجہ فرمایا، لیکن اب وقتِ رحلت قریب آ گیا تھا، دو شنبہ کے دن ۲۱؍ربیع الاوّل ۱۳۸۳ھ ۱۲؍اگست کو صبح ہی سے حضرت والا کی نبض بہت