معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کے بعد ہاتھ میں رعشہ سا ہوگیا اور کچھ صاف نہ لکھا جاسکا۔(ان تمام باتوں کو حضرت ڈاکٹر عبد الحی صاحب مدظلہٗ نے سن کر ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا پر عالم برزخ منکشف کردیا گیا ۔) ۱۵؍جون تک حضرت والا کی چوٹ میں افاقہ ہوگیا اور صحت بہتر ہونے لگی اور ارشاد فرمایا کہ مجھے کراچی لے چلو،اسی اثناء میں جناب شیروانی حبیب الحسن خان صاحب بغرضِ عیادت و زیارت تشریف لائے،حضرت والا سے استفسار فرمایا کہ حضرت! آپ ہندوستان تشریف لے چلیں گے؟ ارشاد فرمایا کہ میں ہندوستان نہیں جانا چاہتا۔ الغرض حضرت والا اپنی خواہش اور منشا کے مطابق ۲۶؍جون ۱۹۶۳ءکو کراچی تشریف لائے، یہاں بھی حضرت والا کے لیے ہڈی کے خاص اور مشہور ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کے مشورے کے مطابق بستر پر ہی پیشاب پاخانہ کرنے کا انتظام رکھا گیا۔ دو ہفتے کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف نے اجازت دےدی کہ اب حضرتِ والا کو تھوڑا تھوڑا چلانے کی کوشش کیجیے، لیکن حضرت والا کے لیے اس مشورے پر عمل کرنا بوجۂ ضعف دشوار تھا۔ کراچی میں تقریباً تین ہفتے جناب حکیم اسعد صاحب مدظلہٗ کا معالجہ رہا۔ موصوف حضرت والا کے خاص محب اور مخلص ہیں۔ انہوں نے بہت اہتمام سے حضرتِ والا کا علاج کیا اور بفضلہٖ تعالیٰ نفعِ عظیم و عجیب مرتب ہوا، لیکن کوئی طبیب پنجۂ قضا کا کیا مقابلہ کرسکتا ہے۔ حضرت والا کے سینے میں بلغم بہت بڑھ گیا، جس سے سانس بند ہونے کے جلد جلد اس قدر شدت سے دورے پڑنے لگے کہ تشویش ناک صورت پیدا ہوگئی۔(اس زمانے میں حضرت والا بغرضِ علاج برنس روڈ پر ماسٹر غلام رسول صاحب (تاج ہوٹل والے ) کے ایک فلیٹ میں قیام فرماتھے، پھر اکابر کے مشورے سے حضرت والا ناظم آباد مکان سابق پر تشریف لائے۔) لہٰذا حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب مدظلہ العالی کے مشورے سے ان کا علاج کچھ دن کیا گیا۔ بفضلہٖ تعالیٰ اُن کے علاج سے سانس کی تکلیف میں بڑا افاقہ ہوا۔ جناب حفیظ اللہ صاحب لاری خلیفۂ حضرت والا پھولپوری جو مستقل