معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
بوقتِ شام لاہور پہنچا۔ غلام سرور صاحب نے فرمایا کہ حکیم جی!آپ کو حضرت والا بہت یاد فرمارہے تھے اور آپ کے بے چینی سے منتظر تھے۔ احقر بے تابانہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ حضرت والا کے اس کرب و بے چینی اور دردِ شدید کو دیکھ کر میرا قلب اندر اندر شدتِ حزن و صدمہ سے سخت متأثر ہورہا تھا کہ حضرت والا نے میری تسلی کے لیے ارشاد فرمایا کہ ’’کچھ گھبرانے کی بات نہیں، سب اللہ کی رحمت ہے۔‘‘ حضرت والا کے اس جملے سے مجھے بڑا سکون حاصل ہوا۔ حضرت والا پر غلبۂ ضعف بہت شدید طاری تھا۔ بعض وقت غشی کی سی کیفیت ہوجاتی تھی، غالباً ۱۰؍جون کو مسلسل چوبیس گھنٹے کی بے ہوشی طاری ہوئی، پھر جب افاقہ ہوا تو مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’حکیم اختر‘‘! عرض کیا: جی حضرت! ارشاد فرمایا کہ ’’تم نے تجہیز و تکفین کا انتظام کرلیا‘‘؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت !کس کی تجہیز وتکفین کرنی ہے؟ ارشاد فرمایا کہ ’’جن کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘احقر نے عرض کیا کہ حضرت!یہاں تو سب لوگ ماشاء اللہ! زندہ بخیر ہیں،کسی کا انتقال نہیں ہوا۔ ارشاد فرمایا کہ ’’ کیا تم سچ کہتے ہو؟‘‘ عرض کیا: حضرت! بالکل سچی بات ہے۔فرمایا کہ ’’ کیا میں ابھی مرا نہیں؟‘‘ عرض کیا: نہیں حضرت! ابھی تو آپ خدا کے فضل سے زندہ مع الخیر ہیں۔ اس گفتگو کے بعد حضرت والا پر پھر غشی کی سی کیفیت طاری ہوئی، تین گھنٹے کے بعد تقریباً۸ بجے شب میں پھر احقر سے ارشاد فرمایا کہ ’’ابھی میں مرا نہیں؟‘‘ عرض کیا: نہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ’’میری زندگی کی دلیل کیا ہے؟‘‘ احقر خاموش ہی تھا کہ خود ہی ارشاد فرمایا کہ میری زندگی کی دلیل یہ ہے کہ میں یہ دعا پڑھ رہا ہوں: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ لِیْ فِیْ دَارِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ رِزْقِیْ ؎ احقر نے عرض کیا کہ حضرت! اس دعا کو آپ تحریر فرمادیجیے۔ غلام سرور صاحب سے کاغذ و پینسل منگایا، حضرتِ والا نے اپنے دستِ مبارک سے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ لکھا، اس ------------------------------