معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
وقت نزع کا عالم طاری ہوجاتا ہےاس وقت اب اس کی ترقی رک جاتی ہے، پس قرب کے جس مقام پر کہ سکرات کا عالم طاری ہوا ہے وہی مقام اس بندۂ سالک کا انتہائی مقام ہوتا ہے۔ اسی طرح رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا اے ہمارے رب! ہمارے نور کو تام فرمادیجیے۔ تو اس تمامیتِ نور میں بھی بہت مراتب ہیں۔ انبیاء علیہم السّلام کی تمامیتِ نور کا اور معیار ہے، صدیقین اور شہداء و صالحین کی تمامیتِ نور کا اور درجہ ہوگا۔ دین کی سمجھ بھی بڑی نعمت ہے۔یہ ایسی نعمت ہے جو عارف کی دو رکعت نماز کو باسمجھ عابد کی ہزار رکعت سے بھی افضل کردیتی ہے۔ اب مضمون کو اس اجمال پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے تین باتیں ضروری ہیں:اوّل:صحبتِ اہل اللہ، ثانی:کثرتِ ذکراللہ،ثالث:تفکر فی خلق اللہ، اور ان تینوں حالتوں میں سب سے اہم اور بنیادی چیز اللہ والوں کی صحبت ہے، بدون صحبت کے عمر بھر کا مجاہدہ و ریاضت شیطان منٹوں میں اکارت کردیتا ہے، اور صحبت یافتہ نفس اور شیطان کے داؤ پیچ سے واقف ہوتا رہتا ہے۔ شیخ کو اپنی حالت سے اطلاع اور اس کی تجویز کی اتباع ایک دن طالب کو مقصود تک پہنچادیتی ہے، اگر کچھ دیر ہو تو گھبراوے نہیں ؎ سالہا با ید کہ تا از آفتاب لعل یابد رنگ رخشانی و تاب اِک زمانہ چاہیے کہ آفتاب کی شعاعوں سے پتھر مستفیض ہوتے ہوتے لعل بن جائے۔ کیمیائے ست عجب بندگی پیرِ مغاں خاکِ او گشتم و چندیں درجا تم دادند اللہ والوں کی غلامی عجب کیمیا ہے کہ چند دن ان کے سامنے مٹنے سے ایسے بلند درجات عطا ہوئے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کیسے بنے تھے؟محض تعلیمِ کتاب سے نہ بنے تھے، تعلیمِ کتاب کا درجہ تو بعد کا درجہ ہے، تعلیمِ کتاب کی نافعیت کا مدار تزکیہ پر ہے، عطر گندی شیشی میں کیا اثر کرسکتا ہے، بلکہ شیشی کی گندگی سے عطر کی خوشبو بھی ضایع ہوجاتی ہے۔