معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
انتساب اور تعلق کا لحاظ چاہتا ہے کہ یہ مخلوق میں ذلیل نہ ہو بلکہ محترم ہو۔ نبوّت کے یہ علوم بھی عجیب جامع ہوتے ہیں۔ حق تعالیٰ کی بارگاہِ بے نہایت پر جس کی نگاہ ہوتی ہے وہ خواہ کتنے ہی مراتبِ قرب طے کرچکا ہو لیکن اس کے سامنے غیر محدود مراتب ہوتے ہیں، پس آگے آنے والے مراتبِ قرب کے سامنے پچھلے مراتب ِ قرب کی طرف اُن کی نگاہ نہیں جاتی ہے، اور جاتی بھی ہے تو بجائے عُجب کے اور ندامت طاری ہوتی ہے، کہ اے اللہ! اب تک ہم کیوں نقصان میں رہے،’’ عشق است و ہزار بدگمانی‘‘، عشقِ دنیاوی میں تو معشوقوں پر ہزار بدگمانی ہوتی ہے۔ اور عشقِ حق میں عاشِق اپنے نفس پر ہزار بدگمانی کرتا ہے، کہ نہ معلوم کس بات پر پکڑ ہوجاوے، نہ معلوم میرا فلاں عمل میاں کو پسند بھی آیا یا نہیں، بس ہر وقت حق تعالیٰ کی خوشی اور ناخوشی پر ان کی نگاہ ہوتی ہے۔ ہم لوگ جس نگاہ سے بزرگوں کو دیکھتے ہیں اس نگاہ سے وہ لوگ اپنے اوپر نظر نہیں کرتے ہیں، ان کی نگاہ اپنے اوپر نگاہِ عبدیت پڑتی ہے، اپنے کو ہر وقت ناقص دیکھتے ہیں، بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا راستہ کبھی قطع نہیں ہوتا ہے ؎ نہ گردد قطع ہر گز جادۂ عشق ازدویدنہا مولانا فرماتے ہیں ؎ اے برادر بے نہایت درگہیست آنچہ بروے می رسی بروے مایست بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تمام صفات غیر محدود ہیں اس لیے اللہ کا راستہ قطع نہیں ہوسکتا، کیوں کہ قطع ہوجانا محدود کو مستلزم ہے، راستہ قطع ہونے سے مراد راہِ عبدیت کے اعتبار سے ہے ؎ نہ گردد قطع ہر گز جادۂ عشق ازدویدنہا حق تعالیٰ اپنے قرب کا جتنا حصہ جس کو عطا فرمانا چاہتے ہیں اسی اعتبار سے اس کی انتہا ہوتی ہے۔ ہر سالک کو موت آنے سے پہلے تک اعمالِ حَسنہ سے قرب حاصل ہوتا رہتا ہے، جس