معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کتاب کی تعلیم دینے سے پہلے ان کے سینے کو رذائل سے پاک فرمایا تھا ۔پس اللہ تعالیٰ کی محبّت اور معرفت اگر حاصل کرنا ہے تو کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کریں۔ ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ ایسے موقع پر اکبر الٰہ آبادی کا یہی شعر پڑھا کرتے تھے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا زندگی کی ہر سانس کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ موت آجانے پر ایک سانس کی مہلت ہفت اقلیم کی دولت قربان کرنے پر بھی نہ مل سکے گی ؎ اختر ؔ جگ میں آئے ہو کچھ دیادھرم کے کام کرو یہ وقت نہیں ہاتھ آئے گا جو کرنا ہے سو آج کرو اب دعا کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ ہم سب کو اپنی معرفت اور محبت عطا فرمائیں،اور اس کتاب’’معرفتِ الٰہیہ‘‘کو قبول فرمائیں،اور اپنے بندوں کے لیے اس کتاب کو نافع فرمائیں، اور ہماری غلطیوں کو معاف فرمائیں، اور ہماری روح کی غذا اپنی محبت و معرفت کو فرمادیں ؎ جامہ پوشاں را نظر بر گاذر است رُوحِ عریاں را تجلّی زیور است جامہ پوشوں کی نظر صرف دھوبی پر ہوتی ہے اور روح عریاں زیور تجلّی حق کا مشاہدہ ہے۔ شد صفیرِ باز جاں در مرجِ دیں نعرہ ہائے لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ دین کی چراگاہ میں عارفین کی روحیں جو مشابہ بازشاہی کے ہیں،لَا اُحِبُّ الافِلیْن کے نعرے لگاتی رہتی ہیں یعنی یہ کہ دنیا کی فانی لذّات کی طرف ہم رُخ نہیں کرتے۔ وَمَاتَوْفِیْقِیْ اِلَّابِاللہِ ،عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ محمد اختر عفااللہ عنہ