معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ جاویں گی۔ بڑی سے بڑی تجارت ہے،خریدوفروخت کا بازار گرم ہے، نماز کے لیے مؤذن نے اذان دی، ادھر کئی خریدار سوسو روپیوں کے نمبری نوٹوں کو دکھارہے ہیں کہ ہم کو فلاں فلاں سودا چاہیے، اب نفس تو یہ کہتا ہے کہ اگر ان خریداروں کے نمبری نوٹوں کو قبضے میں نہیں لائے تو یہ کسی اور دوکان پر چلے جائیں گے، لیکن یہ مردانِ خُدا نفس کے بھونکنے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے، جھٹ دوکان بند کی اور مسجد پہنچ گئے۔ اسی طرح اپنے مال سے بے دریغ زکوٰۃ نکالتے ہیں، ان کو ننانوے کا پھیر ادائیگیٔ زکوٰۃ سے روک نہیں پاتا، یہ مردانگی ان میں کیسے آئی؟ اس کا نسخہ بھی حق تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ہے یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ہر وقت ان کو پیشی کی فکر دامن گیر ہے،کہ ایک دن آنے والا ہے، جس دن صرف حکومت اللہ واحد و قہار کی ہوگی، اور سارے سلاطینِ دنیا اس دن ایک سُوت کے مالک نہ ہوں گے، ہیبت اور جلالِ خداوندی سے اس دن قلوب او رآنکھیں لوگوں کی لوٹ پوٹ ہوں گی، قیامت کے ہولناک دن کی فکر نے اُن کو مَرد بنادیا ہے، اور ہم لوگ جو ’’اے مخنث نَے تو مردی نَے توزن‘‘ کے مصداق ہیں، اس کی وجہ ہماری بے فکری ہے۔ بزرگانِ دین باوجود کمالاتِ علمیہ و عملیہ کے اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے بزرگانِ دین باوجود کمالاتِ علمیہ اور کمالاتِ عملیہ کے اپنے کو کہتے ہیں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، میرے اندر کوئی کمال نہیں ہے، اور اپنی اس بات پر وہ قسم بھی کھالیتے ہیں، سو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کے سامنے قیامت کا ہولناک دن ہے، حق تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کے دن سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں، حق تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کا استحضار اور غلبہ ان کے تمام اوصافِ علمیہ اور عملیہ کو ان کی نگاہ سے اوجھل کردیتا ہے۔ نیز اپنے اعمال میں اخلاص اور ادب کا جو درجہ وہ حق تعالیٰ کی شایانِ شان ضروری سمجھتے ہیں اس کے اندر جب نقصان اور کوتاہی دیکھتے ہیں تو غمگین اور نادم ہوکر اپنی حسنات سے بھی استغفار کرنے لگتے ہیں، کہ کہیں یہ مواخذہ نہ ہوجاوے کہ او بے ادب! کیا اسی طرح میری بندگی کی جاتی ہے کہ ظاہر میرے سامنے ہے او رباطن کبھی حاضِر کبھی غیر حاضر۔