معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
شیخِ محقق پہلے اپنے مرید سے اس کا مشغلۂ معاش معلوم کرتا ہے، اور اس کی صحت پر نگاہ ڈالتا ہے، پھر اس کی قوت اور فرصت کے اعتبار سے تعدادِ ذکر مقرّر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کامل القدرت ہیں، کسی کو چوبیس ہزار ذکر سے پہنچاتے ہیں، کسی کو ایک ہی ہزار ذکر سے پہنچاتے ہیں، بلکہ بعض اوقات چوبیس ہزار والا تھک کر راستے ہی میں رہ جاتا ہے، اور بے چارہ ایک ہزار والا لنگڑاتا ہوا منزل تک پہنچ جاتا ہے،اسی کو حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اے بسا اسپ تیز رو کہ بماند وخرِ لنگ جاں بمنزل بُرد بہت سے تیز رو گھوڑے تھک کر بیٹھ رہے، اور لنگڑا گدھا برابر چلتے رہنے کی وجہ سے منزلِ مقصود تک پہنچ گیا۔ ضعیف بندوں کو تھوڑے ہی عمل میں کامیاب فرمادیتے ہیں، کبھی قلیل عمل کو بے کار نہ سمجھے، بلکہ اگر ناغہ بھی ہوجایا کرے تب بھی کام کیے جائے، سب چھوڑ کر نہ بیٹھ جائے، نا تمام اور بے ترتیب کوشش بھی بالکل سو رہنے سے بہتر ہے، بندہ ضعیف اپنے قلیل عمل پر نادم ہوتا ہے، اس کی ندامت اور اس کا اخلاص میاں کو پسند آجاتا ہے، اس کو چوں کہ فکر اور دُھن ہوتی ہے اس لیے حق تعالیٰ اس کے قلیل ہی عمل پر فضل فرمادیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خط ہمارے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں آیا، کہ حضرت! نیند کم آتی ہے اور ذکر کے وقت روشنی نظر آتی ہے۔ تحریر فرمایا کہ ذکر فوراً ملتوی کردو اور کسی طبیب سے رجوع کرو، سر پر تیل رکھو، دوست احباب کے ساتھ ہوا خوری کے لیے جنگل کی طرف ٹہل آیا کرو اور فرمایا کہ اناڑی پیر ہوتا تو بہت خوش ہوتا کہ اب تجلّی نظر آنے لگی،حالاں کہ اس روشنی کا سبب دماغی خشکی ہے، یہ شخص سودا ویت اور یبوستِ دماغ کا شکار ہوگیا ہے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی! دل اور دماغ یہ سب خدائی مشینیں ہیں، ان سے جب کام لیتے ہو تو اُن کی قوّت کی حفاظت بھی تمہارے ذمہ ہے، سرکاری مشین ہے اگر اپنی لاپروائیوں سے خراب کرو گے تو پکڑ ہوگی، جب