معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
طرف سب سے منقطع ہوکر متوجہ ہونا اسی وقت نصیب ہوگاجب میری یاد کا غلبہ ہوگا، اَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ؎ میں ذاکر بندے کا ذکر کے وقت ہمنشیں ہوتا ہوں، پس میری ہمنشینی تمہیں ماسوا سے مستغنی کردے گی،اور اگر میری ہمنشینی نہ ہوگی تو پھر بتقاضائے بشریت تم خلوت کو پسند نہیں کرسکتے۔ تفکر فی خلق اللہ:صحبتِ اہل اللہ سے کثرتِ ذکر اللہ کی توفیق ہوتی ہے، اور کثرتِ ذکر اللہ کی برکت سے فکر حرکت میں آتی ہے، اور ذاکر حق تعالیٰ کی مصنوعات اور مخلوقات میں غور کرتا رہتا ہے اور عالَم کا ہر ذرّہ ہر پتہّ اس کے لیے معرفت کا دفتر بن جاتا ہے ؎ برگ درختانِ سبز در نظر ہوشیار ہرورقے دفتر یست معرفتِ کردگار ذکر سے زیادہ فکر سے قرب بڑھتا ہے، مگر فکر میں جِلاء اور نورانیت ذکر ہی سے آتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ فکر کا اجر ذکر سے کئی درجے زیادہ ملتا ہے، اس کی تائید ایک آیت سے بھی ہوتی ہے: اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ ﴿ۙ۵۴﴾ فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ ﴿٪۵۵﴾؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ بےشک متقین بندے باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے، ایک عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ’’تفسیر بیان القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ یعنی جنّت کے ساتھ قرب بھی نصیب ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ تقویٰ کی جب یہ برکات ہیں تو تقویٰ یعنی ڈر کِس چیز سے پیدا ہوتا ہے؟ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ فکر سے پیدا ہوتا ہے، اور اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہےوَاَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ------------------------------