معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اس ناکارہ عبد نے عربی درسیات کی تعلیم حضرت شیخ ہی کے مدرسے بیت العلوم میں حاصل کی اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے’’بخاری شریف‘‘کے چند پارے برکت کے لیے پڑھے۔ حضرت شیخ صرف ایک واسطے سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے حضرت کے استاد ِحدیث مولانا ماجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں درسِ حدیث بخاری شریف میں ہم سبق تھے۔ احقر حضرت مرشد رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات کو قلم بند کرکے جب سناتا تو ارشاد فرماتے: ماشاء اللہ! اور بہت مسرور ہوتے۔ ایک بار میرے ایک پیر بھائی سے فرمایا کہ اختر میرےغامض اور دقیق مضامین کو خوب سمجھ لیتا ہے اور انہیں محفوظ کرلیتا ہے۔ ماشاء اللہ دین کی فہم ہے۔ تعلقِ شیخ کے تقریباً چار سال بعد حضرتِ اقدس کیاہلیہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا،ایک عرصے بعد ایک دن فرمایا کہ بغیر بیوی کے بہت تکلیف ہوتی ہے، بعض بیماری ایسی آجاتی ہے کہ پیشاب پاخانے کی خدمت بیوی ہی کرسکتی ہے۔ احقر نے والدہ صاحبہ سے نکاح کےمتعلق مشورہ کیا۔ پھر حضرت اقدس سے درخواست کی، بہت مسرور ہوئے اور عقد فرماکر ارشاد فرمایا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عقد فرمایا تھا۔ اختر اس وقت اکیس سال کا تھا اور توفیقِ الٰہی سے اپنا عالمِ شباب ایک بوڑھے شیخ کی خدمت و صحبت دائمہ پر نذر و فدا کررہا تھا۔ خانقاہ شریف قصبے سے باہر تھی۔ عجیب تنہائی کا عالم رہتا تھا۔ ایک دن والدہ صاحبہ سے حضرت مرشد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اختر میرے ساتھ ایسے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے جیسے کہ دودھ پیتا بچہ ماں کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے۔ حضرت مرشد پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے آخر وقت میں ارشاد فرمایا تھا کہ اختر! میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم مجھے اللہ کے سپرد کردو۔ حضرت مرشد رحمۃ اللہ علیہ اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں ؎