معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حاصل رہا اور اختر پر یہ حق تعالیٰ کا انعامِ عظیم اور یہی میرا حاصلِ مراد ہے ؎ حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیرندیدیم و بہار آخر شد احقر نے اپنے تعلق اور حضرت مرشد رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا ایک اجمالی خاکہ اس نظم میں پیش کیا ہے ؎ شیخِ کامل کی مجھے تھی جستجو تا نہ دھوکا دے جہان رنگ و بو آخرش وہ شاہِ کامل مل گیا چرخ دل کا ماہِ کامل مل گیا سینہ بریاں چشم گریاں آہ سرد تھا سراپا عشقِ حق وہ پیر مرد ہر بُنِ مُو سے محبت کا ظہور چشم تھی غماز عشق نا صبور فرش پر ذاکر تھی اس کی خاک تن روح اس کی عرش پر جلوہ فگن نعرہ ہائے لَا اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡن کررہا تھا دم بدم وہ شیخِ دیں جسم اس کا زائر کوئے حرم جان اس کی محرمِ جانِ حرم جان اس کی تھی ورائے آسماں خاکِ تن کا تھا خدا ہی نگہباں عشق سے اس کا گریباں چاک تھا ذکر اس کا نالۂ غمناک تھا رات کو پچھلے پہر وہ شاہِ دیں اشک ہائے خوں سے تر کر تا زمیں سجدہ گاہِ عاشقانِ ربِّ دیں مثل سجدہ گاہ عامہ کے نہیں سر گردہ شاہ باز حق سے تھا سر بُریدہ تیغ عشق حق سے تھا ترک کر کے درسِ منطق فلسفہ دے رہا تھا درسِ چرخ و زلزلہ تھا وہ عاشق برفنِ دیوانگی سیر تھا از عقل واز فرزانگی میں نے سمجھا قیس تنہا ہے یہاں بیٹھ جاتو بھی اسی در پر یہاں الغرض اخترؔ وہیں رہنے لگا لطف جینے کا وہیں ملنے لگا