معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
خلاصہ یہ کہ تقدیر نام ہے علمِ الٰہی کا، جوکچھ ہم اپنے ارادے سے خیرو شر کرنے والے تھے، ان ہی کو حق تعالیٰ نے لکھوادیا، کیوں کہ علمِ الٰہی سے ایک ذرّہ بھی غائب نہیں ہوسکتا۔ پس تقدیر کے اس صحیح مفہوم کی بنیاد پر نہ تو کوئی بندہ شر پر مجبور ہے نہ خیر پر۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ایک پیر اٹھاؤ، اس نے اٹھالیا، پھر فرمایا کہ دوسرا پیر بھی اٹھاؤ، اس نے مجبوری ظاہر کی، پس فرمایا کہ سمجھ لو کہ بندہ اتنا مختار ہے اور اتنا مجبور ہے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جنتی اور جہنمی کی پہچان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کُلُّ مُیَسَّرٌلِمَاخُلِقَ ؎ ’’جس کے اعمال اچھے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ جنت کے راستے پر چل رہا ہے اور جس کے اعمال بُرے دیکھو تو سمجھ لو کہ جہنم کے راستے پر چل رہا ہے۔‘‘ ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ خیر اور شر دو نسبتیں ہیں،ایک خلق کی دوسری کسب کی۔ خیر میں تو مراقبہ ان کی طرف کی نسبت کا کرے، کسب کا استحضار نہ کرے،اور شر میں مراقبہ اپنی طرف کی نسبت کا کرے، خلق کا نہ کرے۔ غرض خیر میں تو نسبتِ خلق کو مستحضر کرو اور شر میں نسبتِ کسب کو مستحضر کرو، یعنی ادب یہ ہے کہ ہر خیر کی نسبت خدا کی طرف کرنا چاہیے اور ہر شر کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہیے۔ مَآ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ؎ ’’اے انسان! تجھ کو جو کوئی خوشحالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔‘‘ اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس آیت سے قبل قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللہِ فرمایا ہے، یعنی آپ فرمادیجیے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ------------------------------