معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ان آیتوں کے اندر حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ہم ان ہی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جن پر اتنے مقدمات قائم ہوجاتے ہیں: ۱) اللہ تعالیٰ کے معاہدے کو توڑتے رہنا۔ ۲)جن تعلقات کو قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا اس کو قطع کرتے رہنا۔ ۳)زمین پر فساد کرتے رہنا۔ ’’ کرتے رہنے‘‘ کا خوب ترجمہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ سرکشی اور طغیانی کو اپنا شیوہ ہی بنالیتے ہیں۔ اپنے کرتوت سے انہوں نے اپنے کو اندھا، گونگا، بہرہ بنالیا، فرماتے ہیں:اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا وَ اَنۡتُمۡ لَہَا کٰرِہُوۡنَ حضرت نوح علیہ السّلام نے ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ کی، اس طویل مدت میں صرف اسّی یابیاسی انسان مسلمان ہوئے، تو فرماتے ہیں کہ کیا میں اس ہدایت کو چپکادوں درآں حالیکہ تمہیں ہماری باتیں ناگوار معلوم ہوتی رہیں،اور میں ایسا شیدائی ہوں کہ ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ سے تھکا نہیں۔ کفّار کہتے تھے: سَمِعْنَاوَعَصَیْنَا،’’سُن لیا، لیکن نافرمانی کریں گے۔‘‘جب ان کے دل سرکشی کرتے کرتے سیاہ اور زنگ آلود ہوگئے اور کسی کام کے نہ رہے تب حکم ہوا کہ اب تالا چڑھادو، اب اللہ کے تالے پر کون کنجی لگاسکتا ہے۔ کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ ’’حق تعالیٰ فرماتے ہیں ہر گز نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ بیٹھ گیا ہے یہ تالا ان ہی کے کفر کے سبب سے چڑھا ہے۔‘‘ بَلۡ طَبَعَ اللہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ؎ کافر بناکر نہیں پیدا کیے گئے تھے۔ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿٪۳۴﴾؎ اور جس کی وہ ہنسی کیا کرتے تھے اسی نے ان کو آ گھیرا۔ ------------------------------