معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
نیز کافر کا ارادہ ہمیشہ اپنی طرف سے کفر ہی پر قائم رہنے کا ہوتا ہے، اگر ہمیشہ زندہ رہے تو ہمیشہ باغی رہنے کا عزم رکھتا ہے،اور مؤمن اس کے برعکس ہمیشہ اطاعت کا ارادہ رکھتا ہے۔ حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک ظلم سے پاک ہے، بعض لوگوں کو اس آیت سے شبہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾؎ اے ہمارے رسول!ان کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا، دونوں برابر ہیں،یہ کسی حالت میں بھی ایمان نہ لاویں گے۔ تو اس آیت میں حق تعالیٰ نے کافر ہونے کا حکم نہیں فرمایا ہے، اپنا علم ظاہر فرمایا ہے،اگر یہ علم نہ ہو تو مرتبۂ ذات میں جہل لازم آجائے، پھر ایسا خدا، خدا ہی نہیں بن سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو اس آیت پر شبہ ہوا کہ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ’’گمراہ کرتے ہیں بہتوں کو اس مثال کی وجہ سے اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو‘‘ تو اس کا جواب اسی آیت کے بعد ہی موجود ہے، فرماتے ہیں: وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾؎ اور گمراہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کومگر جو توڑتے رہتے ہیں اس معاہدے کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد،اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کو کہ حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو وابستہ رکھنے کا، اور فساد کرتے رہتے ہیں یہ لوگ زمین میں،بس یہ لوگ ہیں پورے خسارے میں پڑنے والے۔ ------------------------------