معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ایک استعدادِ خاص پیدا فرماکر اس پر مَابِہِ التَّکْلِیْفُ یعنی اپنے احکام کا بار رکھ دیتے ہیں۔لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلّف نہیں بناتا ہے مگر اسی کا جو اس کی طاقت میں ہو‘‘ پھر اس عقلِ بالغ کی مدد کے لیے حق تعالیٰ نے ہر زمانے میں نبی اور رسول بھیجا ، وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اور کوئی امّت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔‘‘ پھر ان کی نبوّت و رسالت کی معرفت کے لیے ان کو معجزے اور آسمانی کتابیں اور صحیفے عطا فرمائے۔ پیغمبر آخرالزمان کے بعد قیامت تک ہر صدی میں ایک مجدّد پیدا ہوتا رہے گا، جو امت کے ہر شعبۂ دین کی گمراہی کی اصلاح کرتا رہے گا۔ حق تعالیٰ کو نعوذ باللہ! کافر بنانا مقصود ہوتاتو ہدایت کے اتنے اسباب پیدا فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟ فرعون، نمرود، شدّاد کو اگر حق تعالیٰ جہنمی پیدا فرماتے تو ان کے لیے ان کی جنت کیوں پیدا فرماتے؟ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر شخص کے لیے اس کی جنت اور اس کی جہنم کو حق تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ کافر جہنم میں داخل کیا جائے گا تو اس کی جنت دکھائی جائے گی اور کہا جائے گا :اگر تو مومن ہوتا تو تیرا ٹھکانا یہاں ہوتا۔ اسی طرح مومن جب جنت میں داخل ہوگا تو اس کی جہنم دکھائی جائے گی اور کہا جائے گا: اگر تو کافر ہوتا تو تیرا ٹھکانا یہاں ہوتا۔ کافروں کے خلود فی الناریعنی دائمی عذاب کی سزا پر بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ ان کا کفر اور شرک تو ایک محدود زندگی تک تھا، پھر سزا غیر محدود کیوں تجویز ہوئی؟ تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا عجیب جواب فرمایا ہے، فرمایا کہ کفر اور شرک کی حقیقت بغاوت ہے،اورقاعدہ سلاطینِ دنیاوی کا بھی یہ ہے کہ باغی کو جلاوطن عبور دریائے شور عمر کے لیے کردیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوا کہ بغاوت کی سزا غیر محدود ہے اور یہ امر بمقتضائے عقل ہے۔ دوسرے یہ کہ حق تعالیٰ کی تمام صفات غیر متناہیہ ہیں اور کافر حق تعالیٰ کی ذات اور تمام صفاتِ غیر متناہیہ کا حق ضایع کرتا ہے انکار سے، پس سزا بھی غیر متناہی ہونی چاہیے۔