معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
یَمۡحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ ﴿۳۹﴾؎ خدا تعالیٰ جس حکم کو چاہیں موقوف کردیتے ہیں اور جس حکم کو چاہیں قائم رکھتے ہیں اور اصل کتاب ان ہی کے پاس ہے۔ یعنی بعض تقدیر کو اللہ تعالیٰ کسی خاص شرط پر معلّق رکھتے ہیں، جب وہ شرط علمِ الٰہی کے مطابق وجود میں آجاتی ہے تو اس کو مٹادیتے ہیں، مثلاً کسی کو جہنمی لکھ دیا اور علمِ الٰہی میں یہ قضا مشروط تھی کہ مثلاً جب ہمارا فلاں بندہ اس کے لیے دعا کرے گا تو اس کی اس تقدیر کو مٹاکر جنتی کردوں گا۔ یہ ایک تمثیل ہے، تاکہ بات واضح طور پر سمجھ میں آجائے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ’’اللہ نے مُہر لگادی کافروں کے دلوں پر‘‘تو اس شبہے کا جواب حق تعالیٰ ہی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: بَلۡ طَبَعَ اللہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡاس آیت میں حق تعالیٰ نے اس مُہر کی وجہ بیان فرمادی کہ ان کی مُسلسل سرکشی جب اس حد تک پہنچ گئی کہ ان کے دل بالکل سیاہ ہوگئے اور علمِ الٰہی میں قبولِ ہدایت کی صلاحیت انہوں نے اپنی اختیاری طغیانی اور سرکشی سے مفقود کردی تو حق تعالیٰ نے سزاء ً ان کے دلوں پر مُہر بھی فرمادی،اور یہ ظلم نہیں ہے، ظلم تو اس وقت تھا جب کہ پہلے ہی سے مُہر کردی جاتی، لیکن حق تعالیٰ کی رحمت نے ایک صلاحیت تو عالمِ ازل میں اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ کے سوال کے وقت ارواح میں پیدا فرمائی، پھر اس صلاحیّت اور استعداد کی ترقی کے لیے عقل کو بالغ فرمایا۔ بالغ کے معنیٰ عربی میں پہنچنے والے کے ہیں، پس عقل کے بالغ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب عقل کی استعداد اس درجے کو پہنچی کہ احکامِ شریعت کا بار اٹھاسکتی ہے۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ احکامِ شریعت سب عینِ عقل ہیں، کوئی امر خلافِ عقل نہیں۔ اگر خلافِ عقل ہوتے تو ان کا بار نا بالغوں پر بھی رکھا جاتا۔ عقل کا بلوغ جس عالم سے آتا ہے اسی عالم سے احکامِ شرعیہ بھی آتے ہیں، پس مَابِہِ التَّکْلِیْفُیعنی عقل بالغ میں حق تعالیٰ ------------------------------