معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ناخوش ہوجائے۔ جب میری مرضی پر اس طرح تمہاری نگاہ جم کر رہ جاوے گی تو ہماری مرضی بھی تمہارے ساتھ ہوجاوے گی ؎ ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے دونوں جانب کے اشارے ہوچکے کام تو کرکے دیکھو، زبانی قیل و قال سے کام نہیں چلتا ہے ؎ کارکن کار بگزر از گفتار اندریں راہ کار باید کار کام میں لگ جاؤ اور چرب زبانی سے باز رہو۔ اس راہ میں کام درکار ہے۔ ترقی اعمال سے ہوتی ہے، نہ کہ محض گفتار سے۔ اس عالمِ ناسوت میں روح کے علوم بڑھ گئے، کیوں کہ حق تعالیٰ کے تمام اسمائے حُسنیٰ کی معرفت نصیب ہوگئی اور بندوں کے ساتھ تمام اسمائے حُسنیٰ کا تعلق ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ بندے کو جس قسم کی حاجت پیش ہو اسی حاجت کے مناسب حق تعالیٰ کے ناموں میں سے کوئی نام منتخب کرکے اس کا کثرت سے ورد کرے، تو وہ حاجت بہت جلد پوری ہوجاتی ہے، مثلاً کوئی رزق کی تنگی میں مبتلا ہےتو کثرت سے یَامُغْنِیْ کا ورد کرے۔ مغنی اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے، جس کے معنیٰ ’’غنی کردینے والی ذات‘‘ کے ہیں۔ حق تعالیٰ کے تمام اسمائےحسنیٰ کی توجہ بندوں کی تربیت کے ساتھ کام کرتی رہتی ہے، اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں، تو اس صفتِ مغفرت ورحمت کے تعلق سے بندوں کو مغفور اور مرحوم کہا جاتا ہے۔ وہ رزاق ہیں تو بندے مرزوق ہیں۔ وہ ودود ہیں تو بندے مودود ہیں۔ وہ خالق ہیں تو بندے مخلوق ہیں۔ وہ صاحبِ غضب ہیں تو مجرمین مغضوب ہیں، علیٰ ہذاالقیاس اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کی تفصیلی معرفت اسی عالم میں ارواح کو نصیب ہوئی ہے، اسی لیے فرماتے ہیں: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔