معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر جنّتی اپنے باپ حضرت آدم علیہ السّلام کے قدپر ہوگایعنی ساٹھ گز کا،اور یہ تو ظاہری خلعت کا انعام ہے، باطن میں نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہوں گی، سینہ ہوگا کہ قرب اور معرفت کے انوار موجیں مارتے ہوں گے۔ واہ رے بیج تو عالمِ ارواح میں کیا تھا اور اس عالم میں تونے آکر کیا ترقی کی! ؎ ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے دوست اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے حاصل یہ ہے کہ روح کو حق تعالیٰ سے جدائی کی جو شکایت تھی’’وزجدائی ہا شکایت می کند‘‘اس کے علاج کے لیے حق تعالیٰ نےصراطِ مستقیم نازل فرمائی، اور حکم فرمادیا کہ اسی صراطِ مستقیم پر چلو،اسی سے ہجر کی شکایت رفع ہوگی۔ جب ہماری اطاعت وفرماں برداری میں لگ جاؤ گے تو تمہاری جدائی میرے قرب سے بدل جائے گی اور اس قرب میں اس قدر ترقی ہوگی کہ عالمِ ارواح کی محویت اور وہاں کی استغراقی لذّت یہاں کے قرب کے سامنے بھول جاؤ گے، اس وقت جو ہجر کی شکایت ہے اس کا سبب یہ ہے کہ ابھی عقل پر طبیعت کا غلبہ ہے، چند روز جبراً نفس کو کام میں لگادو اور طبیعت پر عقل کو غالب کرکے استقامت کے ساتھ معمولا ت ذکر وغیرہ کی پابندی کرلو، چند ہی روز میں یہ دنیا تمہارے لیے باعتبارِ قرب اور اُنس کے عالمِ ارواح سے بڑھ کر ہوجاوے گی، اور ایک عجیب ستھری زندگی ہم تمہیں عطا فرمادیں گے۔ اس حیاتِ طیّبہ کا مفہوم یہ ہے کہ جو ہم چاہتے ہیں وہی تم بھی چاہنے لگو گے، جس بات سے ہم خوش ہوتے ہیں اسی سے تم بھی خوش ہوگے، جو بات ہم کو ناپسند ہے وہی تم کو بھی ناپسند ہوگی۔ یعنی تمہاری خواہشات میری مرضیات کی تابع دار اور غلام بن جاویں گی، اور ہماری مرضیات تو پاک ہیں پس تمہاری مرضیات بھی ہماری مرضیات کی تابع داری کی برکت سے پاک ہوجاویں گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے تمام اعضا سے پاکیزہ اعمال صادر ہوں گے، تمہارا ظاہر پاکیزہ ہوگا تمہارا باطن پاکیزہ ہوگا اور میری مرضی پر ہر وقت تمہاری نگاہ کی ٹکٹکی بندھی ہوگی کہ ہم کون سا عمل کریں کہ میاں ہم سے خوش ہوجائیں،اور ہر وقت خوف رہے گا کہ کوئی ایسی بات نہ ہوجائے کہ میرا اللہ مجھ سے