معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کرتے تھے کہ نبوت تو غیر اختیاری ہے لیکن ولایت کو بندوں کے اختیار میں دے دیا ہے، کیوں کہ ولایت کی دونوں شرطیں ایمان اور تقویٰ اختیاری ہیں، اور حضرت کبھی جوش میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ نبوت کا دروازہ تو بند ہوگیا ہے لیکن ولایت کا دروازہ قیامت تک کھلا ہوا ہے۔ اب بھی حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ موجود ہیں ؎ ہنوز آں ابرِ رحمت درفشان است خم و خم خانہ با مہر و نشان است تقریرِ مذکور سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رُوح کے لیے عالمِ ارواح میں اسبابِ قرب موجود نہ تھے، پس اُس عالم میں ہماری عبدیت حق تعالیٰ کی ولایت سے مشرف نہ ہوسکتی تھی، وہاں صرف بندے رہتے، حق تعالیٰ کے دوست نہ بن سکتے، کیوں کہ شرطِ ولایت کا یعنی ایمان بالغیب اور تقوے کا اسی عالمِ ناسوت میں انتظام کیا گیا ہے۔ پس رُوح کا عالمِ ارواح سے جدا ہوکر عالمِ ناسوت میں آنا صورتاً تو ہجر ہے لیکن معناً عینِ وصال اور قرب ہے۔ چناں چہ دنیا میں حق تعالیٰ کی اطاعت اور تقوے کی برکت سے قرب کے کیسے کیسے مراتب اولیاء اللہ کو عطا ہوتے ہیں اور روح کا تعلق جب تک اس جسدِ عنصری سے رہتا ہے مسلسل اعمالِ حسنہ کے ذریعے درجاتِ قرب میں ترقی ہوتی رہتی ہے، اور جس وقت روح بحکمِ الٰہی جسدِ عنصری سے اپنا تعلق منقطع کرکے عالمِ ناسوت سے چل دیتی ہے اسی وقت رُوح کی ترقی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ عالمِ آخرت میں جو کچھ ثمرات اور درجات عطا ہوں گے وہ دنیا ہی کے اعمال اور مجاہدات کے نتائج ہوں گے۔ اس تقریرِ مذکور کے پیشِ نظر روح کو ہجر کی شکایت نہ ہونی چاہیے۔ طبیعت پر عقل کو غالب کرکے کام میں لگ جانا چاہیے۔ کام میں لگتے ہی ان شاء اللہ میاں کی طرف سے کرم کے ایسے جھونکے باطن میں محسوس ہوں گے کہ سارا دردِ فراق عینِ قرب معلوم ہوگا۔ جب اس بیج کے پھول پھل اپنے اندر دیکھو گے تب آنکھیں کھل جائیں گی کہ کہاں تو عالمِ ارواح میں مثل چیونٹی کے تھے اور اب ساٹھ ساٹھ گز کے ہیں۔