معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ غلام کو دوست بنانا معمولی انعام نہیں ہے۔ دنیا کے اندر کوئی بادشاہ کسی غلام کو دوست نہیں کہتا ہے۔ اس میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔ کتنا ہی جاں نثار غلام ہو لیکن اس کو اپنا دوست کہتے ہوئے شرمائیں گے۔ اس کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ ہماری لاکھوں جانیں اس ربّ العالمین، احکم الحاکمین پر قربان ہوجائیں،یہ ان ہی کا کرم ہے کہ قرآن میں اپنے بندوں کو اولیاءکے خطاب سے نوازا ہے۔ دنیا کے بادشاہ بھی آدمی ہیں اور ان کا غلام بھی آدمی ہے،اس جنسی مشارکت کے باوجود غلام کو دوست کہنے سے فرقِ مراتب کا لحاظ ان کو عاردلاتا ہے۔ اور کہاں بندۂ حادث، مخلوق، ضعیف، سراپا محتاج اورکہاں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک! لیکن حق تعالیٰ کی رحمت اور محبت کو دیکھنا چاہیے کہ غلاموں کو اپنا دوست فرمایا ہے۔ ایک جگہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُ ہم بندوں کے گناہوں کو کیوں بخش دیتے ہیں؟ میری شانِ غفاریت اورغفوریت کا ظہور کیوں ہوتا ہے؟ محبت کے مارے، ہم وَدُوْدْ بھی تو ہیں، ہمیں اپنے بندوں سے بڑی محبت ہے۔ حق تعالیٰ کی اپنے بندوں پر اس قدر رحمت ہے کہ فرماتے ہیں کہ اگر تم ہماری رحمت سے ناامید ہوگئے تو کافر ہوجاؤ گے۔ اللہ اکبر! کس قدر رحمت کی شان اس عنوان میں موجود ہے ،جہنم کے عذاب سے ڈرا کراپنی رحمت کا امید وار بنارہے ہیں۔ ایک عالم نے پچاس برس حق تعالیٰ شانٗہ کی رحمت کا وعظ کیا تھا، جب ان کا انتقال ہوگیا تو حق تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میرے اس بندے نے پچاس برس تک میرے بندوں کو میری رحمت کا وعظ سنایا ہے، مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس بندے سے حساب لوں، لے جاؤ اس کو جنّت میں داخل کردو، میں نے اپنی رحمت سے اس کو بخش دیا۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ ارواح سے اس عالمِ ناسوت میں حق تعالیٰ نے ہمیں اس لیے بھیجا کہ ہم وہاں جو مثل بیج کے تھے،یہاں اس کی کھیتی ہو،اور اس کے پھل پھول ظاہر ہوں۔ اس بیج کے پھل پھول کیسے حاصل ہوتے ہیں؟ آخرت کی کھیتی کا کیا طریقہ