معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾؎ وہ تم کو خوب جانتا ہے جب تم کو زمین سے پیدا کیا تھا اورجب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے، تو تم اپنے کو مقدس مت سمجھا کرو، تقویٰ والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔ اسی کو حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ نفس ازبس مدحہا فرعون شد کن ذلیل النّفس ہوناً لا تسد مولانا فرماتے ہیں کہ نفس لوگوں کی تعریف سے فرعون ہوجاتا ہے، پس تم ذلیل النفس رہو اور ہر گز سرداری مت طلب کرو۔ فنائیتِ تامّہ کے بعد اب یہ حضرات اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس بشارت کے اہل ہوں گے کہ ان کو اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ کا خطاب دیا جائے، تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے، کیوں کہ اس ایمان اور ان اعمال کا تعلق بظاہر تو ان کے اعضا سے ہے، گویہ اعضا بھی ہمارے ہی عطا فرمودہ ہیں، لیکن ہماری عطا اور بندہ نوازی کا مقتضا یہی ہے کہ ہم اس ادنیٰ تعلق اور ملابست پر ان کو اَلرّٰشِدُوۡنَ کا لقب مرحمت فرمادیں، اور فنائیتِ تامّہ چوں کہ ان کو حاصل ہوچکی ہے اس لیے اندیشہ ناز و پندار کا نہیں رہا، بلکہ یہ مقبولین ہمارا شکر ہی بجا لائیں گے کہ حَبَّبَ اور کَرَّہَ کے فاعل تو میاں ہیں، ورنہ ہم کو ایمان کی مرغوبیت اور یہ کراہت مِنَ الۡکُفۡرِ وَ الۡفُسُوۡقِ وَ الۡعِصۡیَانِ کہاں سے نصیب ہوتی۔ پس باوجود اس کے کہ یہ سب کچھ اعمال و احوال ان ہی کی عطا ہیں پھر رشد کی جو نسبت ہماری طرف فرمائی گئی ہےیہ محض بندہ نوازی نہیں تو اور کیا ہے ؎ کہاں میں اور کہاں یہ نکہتِ گل میرے مولا یہ تیری مہربانی آگے حق تعالیٰ نے اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَفرمانے کے بعد انعام کو صراحت سے بھی ------------------------------