معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اگر تم یہ سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو اس خبر کی تصدیق کردو، لیکن اگر یہ سنو کہ کوئی شخص اپنی جبلت سے ہٹ گیا تو مت تصدیق کرنا۔ رذائل کے اندر حکمتیں ہیں،یہ مخلوقاتِ الٰہیہ ہیں۔ع نیست باطل ہر چہ یزداں آفرید یہ غصّہ و شہوت وغیرہ بے کار نہیں پیدا کیے گئے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ازالہ رذائل کا ناممکن ہے توپھر اصلاح کیسے ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصلاح کا طریقہ ازالہ ہی نہیں ہے، جو ازالہ کرنا چاہے وہ اناڑی پیر ہے۔ جاہل غیر محقق ازالے کی کوشش کرتاہے اور طالب کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔ اصلاح نام ہے ان رذائل کے امالے کا۔یہ خدائی مشین کے پُرزے ہیں، ان کو اکھیڑنا نہ چاہیے، ان سے کام لینا چاہیے ؎ شہوتِ دنیا مثال گلخن است کہ از و حمّامِ تقویٰ روشن است ان رذائل سے کام لینا چاہیے، وہ کام کیا ہے؟ وہ ایسا کام ہے کہ اسی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ان کو ایندھن بناکر تقوے کا کھانا پکانا چاہیے۔ ہر بُری خواہش کو تقوے کی بھٹی میں ڈال دو،تقوے کا حمّام روشن ہوجاوے گا۔ اگر نفس کے یہ بُرے تقاضے انسان میں موجود نہ ہوتے تو پھر امتحان کس بات کا ہوتا؟ ان رذائل کا جو بمنزلۂ ایندھن دیے گئے ہیں، اگر ہم ان کو کھانے لگیں گےیعنی ان کے مقتضا پر عمل کرنے لگیں تو ہم ہلاک ہوجائیں گے۔ ہر رذیلے کو اس کے صحیح مصرف کی طرف پھیردینا یہی اس کی اصلاح ہے، مثلاً غصہ ہے، اللہ کی نافرمانی میں صَرف کرنے کے بجائے اس کو جہاد میں کفار پرخرچ کیا جائے، اپنے نفس کی نافرمانی پر اپنے اوپر کیا جائے، یہی اس کا امالہ ہے۔ صحابہ کی شدت کا جب مصرف صحیح ہوگیا تو وہ شدت محمود ہوگئی اور حق تعالیٰ تعریف فرمارہے ہیں:اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ اگر مادہ ہی شدت کا نہ رکھا گیا ہوتا تو کفار پر شدت کہاں سے لاتے؟ اسی طرح محبت کا مادّہ بھی نہ رکھا گیا ہوتا تو رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ