معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا ﴿۷۷﴾؎ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا: اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت ہی لے لیتے۔ کیوں کہ اس گاؤں کے لوگوں نے مسافر کا حق نہ سمجھا کہ ہم لوگوں کو اپنا مہمان بنالیتے، کیا ضرورت تھی کہ ان کی دیوار مفت بنادی جائے؟‘‘ (موضح القرآن) صاحبِ ’’تفسیر علی مہائمی‘‘ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر گزر چکا تھا۔چناں چہ جب اس قبطی کو ایک گھونسہ مارا اور وہ مرگیا اور یہ خبر فرعون تک پہنچی تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے متعلق درباریوں سے مشورہ کیااور اخیر رائے موسیٰ علیہ السّلام کو قتل کرنے کی قرار پائی۔اس مجمع میں ایک شخص حضرت موسیٰ علیہ السّلام کےمحب وخیرخواہ تھے، وہ دوڑے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کےپاس آئے اور اس خبر کی اطلاع دے کر مشورہ دیا کہ آپ یہاں سے چل دیجیے۔یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی: رَبِّ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿٪۲۱﴾ اے میرے پروردگار! مجھ کو ان ظالموں سے بچا لیجیے۔ پھر یہ دعا کرکے حضرت موسیٰ علیہ السّلام توکّلاً علی اللہ غیبی القاء سے مدین کی طرف ہولیے۔ جب مدین کے کنویں پر پہنچے تو اس پر مختلف آدمیوں کا ایک مجمع دیکھا، جو اس کنویں سے کھینچ کھینچ کر اپنے مواشی کو پانی پلارہے تھے اور ایک طرف کو دوعورتیں دیکھیں کہ وہ اپنی بکریاں روکے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیا مطلب ہے؟ وہ دونوں بولیں کہ ہمارا معمول یہ ہے کہ ہم اپنے جانوروں کو اس وقت تک پانی نہیں پلاتیں جب تک یہ چرواہے جو کنویں پر پانی پلارہے ہیں پانی پلاکر جانوروں کو ہٹاکر نہ لے جائیں۔ایک تو حیا کے سبب، دوسرے مَردوں سے مزاحمت ناتوانوں سے کب ہوسکتی ہے؟ اور اس حالت میں تو ہم آتے بھی نہیں مگر ہمارے باپ ------------------------------