معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اگر آسمان اور زمین میں دو معبود یعنی خدا ہوتے تو زمین اور آسمان دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ دونوں خدا آپس میں صلح اور مشورے سے کام کرلیا کریں تو یہ فساد نہ عارض ہو، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صلح و مشورے کی احتیاج اور ضرورت خدا کے لیے کیوں پڑی؟ صلح تو اسی وقت کی جاتی ہے جب کوئی اپنے مخالف پر غلبہ پانے سے مجبور اور عاجز ہوجاتا ہے،اور عاجز ہونا یا محتاج ہونا خدا کی شان کے خلاف ہے، پس یہ بات ثابت ہوئی کہ متعدد خدا کا ہونا عقلاً محال ہے۔ دلیلِ ثانی :اور دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر متعدد خدا ہوتے تو جس وقت ہر زمانے میں انبیاء علیہم السّلام ایک خدا ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور ان کے معجزوں کے مقابلے سے ساری مخلوق انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے عاجز ہوتی ہے اس وقت اگر کوئی اور خدا موجود ہوتا تو اس رسول کے مقابلے میں اپنی قدرت کو ضرور استعمال کرتا، کیوں کہ اس صورت میں اس دوسرے خدا کی سخت توہین ہے، بلکہ جڑ ہی سے اس کی خدائی کا پتا کٹ جاتا ہے۔ پس اس وقت میں پورے غیظ و غضب کے ساتھ وہ دوسرا خدا پیغمبرِ توحید کو اعلانِ جنگ کرتا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معجزۂ رسول کے مقابلے میں کسی جھوٹے خدا نے کبھی فتح پائی ہو، اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ صد ہزاراں نیزۂ فرعون را در شکست آں موسیٰ بایک عصا صد ہزاراں طِبِّ جالینوس بود پیشِ عیسیٰ و دمش افسوس بود صد ہزاراں دفتر اشعَار بود پیش حرفِ امّیش آں عار بود آج بھی قرآن کا معجزہ موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا،قرآن کا جس وقت اعلان ہوا کہ لاؤ اس کلام کے مثل ایک محدود ٹکڑا اور اپنے حمایتیوں کو بھی جمع کرلو اور قیامت تک تم ایسا نہ کرسکو گے۔ ظاہر ہے کہ یہ مواقع ایسے نہیں تھے کہ دوسرا خدا باوجود قدرتِ کاملہ کے خاموش رہتا، اس وقت میں ایسی لاگ پیدا ہوجاتی کہ ایڑی چوٹی کا زور لگادیتا،