معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اپنے حمایتیوں کو جو خدا سے الگ خدا تجویز کرر کھے ہیں اگر تم سچے ہو، پھر تم اگر یہ کام نہ کرسکے اور قیامت تک نہ کرسکو گے تو پھر ذرا بچتے رہیو دوزخ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں،تیار ہوئی رکھی ہے کا فروں کے واسطے۔ ( ترجمہ و تفسیر ازبیان القرآن) فائدہ:اور قیامت تک بھی نہ کرسکو گے، کیسا جوش و خروش اور پیچ و تاب نہ آیا ہوگا اور کوئی دقیقہ سعی کا کیوں اٹھا رکھا ہوگا، پھر عاجز ہوکر اپنا سا منہ لے کر بیٹھ رہنا قطعی دلیل ہے کہ قرآنِ مجید معجزہ ہے،اور یہ امر عادتاً محال ہے کہ کسی نے قرآن کے مقابلے میں کچھ لکھا ہو اور گم ہوگیا ہو، کیوں کہ قرآنِ مجید کے حامی ہر زمانے میں کم رہے ہیں، جب یہ محفوظ چلا آتا ہے تو اس مخالفتِ تحریر کے حامی و مددگار تو قرآن کی مخالفت میں ہر زمانے میں حامیانِ قرآن سے تعداد میں زائد ہی تھے، تو وہ تحریر کیسے ضایع ہوسکتی ہے؟ اس لیے یہ احتمال کہ کسی عرب کا فر نے کسی آیتِ قرآنی کے مقابلے میں کچھ لکھا ہوگا اور وہ تحریر گم ہوگئی ہو بالکل لغو اور خلافِ عقل ہے ۔ (از بیان القرآن پ:۱) چالیس برس کے بعد ظہورِ نبوّت میں بڑے اسرار ہیں، جن کی پوری خبراللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اس مقام کے مناسب ایک حکمت یہ بھی ہے کہ چالیس برس تک حق تعالیٰ نے حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا مشاہدہ کرایا وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ؎ آپ خُلقِ عظیم پر ہیں۔‘‘عَلٰی آتا ہے استعلاء کے لیے، اسی لیے اردو میں عَلٰی کا ترجمہ ’’پر‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ پس اس آیت کا یہ مفہوم ہوا کہ خلقِ عظیم ایک سواری ہے جس پر آپ سوار ہیں، جس طرف چاہتے ہیں ہرخلق کی باگ کو پھیر دیتے ہیں،یعنی تمام اخلاقِ حسنہ پر آپ کو ایسا رسوخ علی وجہ الکمال حاصل تھا کہ کوئی خُلق سرِمُوحدِ اعتدال سے جنبش نہیں کرسکتا تھا کہ کیا مجال کہ سرِمُو آگے بڑھ سکے یا پیچھے ہٹ سکے، جہاں چاہا وہیں سے باگ پھیر دی۔ اس آیت کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع تعریف حق تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے۔ اے اہلِ عرب! چالیس برس تک تم لوگوں نے اپنے معاملات میں میرے ------------------------------