معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
من نجو یم زیں سپس راہِ اثیر پیر جو یم پیر جو یم پِیر پِیر میں آسمان کا راستہ نہ ڈھونڈوں گا مگر پیر ڈھونڈوں گا پیر ڈھونڈوں گا پیر پیر،یعنی پیر ہی کے ذریعے راستہ حاصل ہوگا۔ پیر کی محبت میں یہ شعر ایک خاص والہانہ کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔ ایک مقام پر کسی قصّے کے اندر صرف شہر تبریز کا نام آگیا، وہاں بھی مولانا پر پیر کے شہر کے نام سے ایک حالت طاری ہوگئی اور کئی شعر تبریز شہر کی تعریف میں فرما گئے۔فرماتے ہیں ؎ اُبْرُکِیْ یَا نَاقَتِیْ طَابَ الْاُمُوْرُ اِنَّ تَبْرِیْزًامُنَاجَاتُ الصُّدُوْرِ بیٹھ جا اے میری ناقہ! سب کام اچھے ہوگئے، بےشک تبریز دلوں کی گفتگوکی جگہ ہے۔ اِسْرَحِیْ یَانَاقَتِیْ حَوْلَ الرِّیَاضٖ اِنَّ تَبْرِیْزًا لَّنَا نِعْمَ الْمَفَاضُ چرتی رہ اے میری ناقہ! باغوں کے گرد، بے شک ہمارے لیے تبریز خوب محلِ فیض ہے۔ سار باناں باربکشا ز اشتراں شہر تبریزاست کوئے دلستاں اے ساربان!اسباب اونٹوں پر سے کھول دے، یہ شہر تبریز ہے اور محبوب کا مقام ہے۔ فرِّ فر دو سی است ایں فالیز را شعشعہ عرشی است ایں تبریز را فردوس کی سی رونق ہے اس چمن کے لیے،عرش کی سی روشنی ہے اس تبریز کے لیے۔ ہر زمانے فوج رُوح انگیز جاں از فرازِ عرش بر تبریزیاں ہر وقت خوشبو راحت انگیز رُوح کی فوقِ عرش سے تبریزیوں پر وارد ہورہی ہے۔