معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
میری آتش کا تحمل جو کرے کوئی بندہ مجھ کو اب ایسا ملے چناں چہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور الہام ہوا کہ رُوم جاؤ ؎ پس اچانک غیب سے آئی صدا شمس تبریزی تو فوراً رُوم جا اسی وقت چل کھڑے ہوئے، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ پر جس وقت حضرت تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی نظر پڑی تو آپ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی، جس کو مولانا نے اپنی ایک غزل میں اس انداز سے بیان فرمایا ہے ؎ نہ تنہا من دریں میخانہ مسْتم ازیں مے ہمچوں من بسیار شد مست ازیں مَے جرعۂ پا کاں چشید ند جنید و شبلیؔ و عطارؔ شد مست چو بر من شمسؔ تبریزی نظر کرد تو مُلاّ بر سر ِ بازار شد مست ۱) میں اکیلا ہی اس محبّتِ حق کے میخانے کا مست نہیں ہوں، بلکہ اس مَے سے مجھ جیسے بہت سے مست ہیں۔ ۲) اس شرابِ محبّتِ حق کا جرعۂ پاک پاک بندوں نے نوش کیا ہے۔چناں چہ حضرت جنید و شبلی و عطار رحمۃ اللہ علیہم سب کے سب مست ہوگئے۔ ۳) جب مجھ پر حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے نظر ڈالی تو یہ مُلّا رُومی برسرِ بازار مست ہوگئے۔ اور حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں آپ سلوک کے منازل طے کرنے میں مشغول ہوگئے اور درس و تدریس اور وعظ و پند کے اشغال چھوڑ دیے۔